لکھنؤ۔ سال 2023 بھی بی ایس پی کیلئے مفید نہیں رہا۔ پارٹی کا گراف نیچے جاتا ہوا دکھائی دیا۔ پارٹی سپریمو مایاوتی نے کئی حکمت عملی اختیار کی، کوآرڈینیٹر تبدیل کئے، نوجوانوں پر فوکس کیا، مدھیہ پردیش، راجستھان، تلنگانہ، چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات میں بھتیجے کو آگے کیا۔
خود کمان سنبھالی ، تمام ریلیاں کیں، ریاستوں کے انتخابات میں گٹھ بندھن کیا۔ اس کے باوجود پارٹی کی کارکردگی مایوس کن رہی، راجستھان میں بمشکل دو سیٹوں پر جیت حاصل کرنے والی بی ایس پی باقی ریاستوں میں صفر پر آگئی، ووٹ فیصد میں زبردست گراوٹ آئی، خود مایاوتی بھی نتیجوں سے حیران رہ گئیں،
انہیں سمجھ میں نہیں آیا ماحول بی جے پی کے خلاف تھا تو جیت اتنی شاندار کیسے ہوئی؟ اس سلسلے میں انہوںنے پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کو بھی آگاہ کیا اور بی جے پی کی سیاسی چال سے بچ کر رہنے کی نصیحت تک دے ڈالی، اسی سال مئی میں ہوئے شہری بلدیاتی اور پنچایت انتخابات میں بھی بی ایس پی کچھ خاص حاصل نہیں کر پائی بلکہ جو سیاسی گرفت تھی وہ بھی کمزور پڑتی گئی۔
ریاست کے 17 میونسپل کارپوریشنوں میں سے 11 میں پارٹی کے مسلم امیدوار تھے۔ نگر پالیکا پریشد اور نگر پنچایتوں میں بھی پہلے سے کہیں زیادہ مسلم امیدوار پارٹی نے کھڑے کئے تھے۔
دوسری طرف کسی بھی برہمن – چھتریہ کو پارٹی نے میئر امیدوار نہیں بنایا تھا۔ گذشتہ انتخابات میں میرٹھ اور علی گڑھ کے میئر کے علاوہ 29 نگر پالیکا پریشد اور 45 نگر پنچایت صدر کے ساتھ 627 کارپوریٹر رکن جیتنےو الی بی ایس پی کی کارکردگی اب کی بے حد خراب ہی رہی ہے۔ ایک بھی میئر کا عہدہ نہ جیتنے والی بی ایس پی کے صرف 6 پالیکا صدر اور 31نگر پنچایت صدر ہی جیت سکے ہیں۔
اسمبلی انتخابات میں صرف ایک سیٹ پر سمٹنے والی بی ایس پی کیلئے تشویش کی بات یہ رہی کہ بڑی تعداد میں مسلم امیدوار اتارنے کے باوجود اس کے ساتھ مسلم آتے نظر نہیں آئے۔ بلدیاتی اور پنچایت انتخابات کے بعد ہوئے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھی بی ایس پی کوئی کمال نہیں کر پائی۔
راجستھان میں گذشتہ الیکشن میں 6 سیٹیں جیتنے والی بی ایس پی کو اس بار یہاں صرف 2 سیٹیں ملیں جبکہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں گونڈوانا گنتنترپارٹی سے اتحاد کے باوجود اسے مایوسی ہی ملی۔ ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ گذشتہ اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی کو راجستھان میں 6 ، مدھیہ پردیش میں 2 اور چھتیس گڑھ میں 2 سیٹیں ملی تھیں۔ ووٹ فیصد بھی گرگیا۔
راجستھان اسمبلی انتخابات میں اسے 82.1 فیصد ووٹ کےساتھ صرف دو سیٹیں ہی ملی ہیں۔ مدھیہ پردیش میں گذشتہ اسمبلی الیکشن میں بی ایس پی نے 01.5 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے 2 سیٹوں پر جیت کا پرچم لہرایا تھا۔ اس بار مدھیہ پردیش میں اسے 35.3 فیصد ووٹ مل سکے اور کوئی بھی سیٹ اس کے حصہ میں نہیں آئی۔ چھتیس گڑھ میں اسے 07.2 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ سیٹیں ہارنے کے ساتھ ہی بی ایس پی کے ووٹ فیصد میں گراوٹ آئی ہے۔
پارٹی ان نتیجوں سے فکرمند ہے۔ نئے سال 2024 میں پارلیمانی انتخابات ہیں۔ بی ایس پی سپریمو سبھی ریاستوں کے پارٹی عہدیداروں کے ساتھ جلسہ کر رہی ہیں۔ نئے سال میں پارٹی کو پھر سے کھڑا کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ انڈیا اتحاد میں بھی بی ایس پی کے شامل ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نیا سال مایاوتی کے سیاسی گراف کو کتنا اوپر لے کر جا سکے گا۔