عبید اللہ ناصر*
ایسا لگتا ہے اسرائیل کا وزیر اعظم نتن یاہو ذہنی مریض ہو گیا ہے حماس کے حملے سے بوکھلائے نتن یاہو نے حماس کے خاتمہ کے لئے غزہ پر دھاوا بول دیا تھا اسے امید تھی کہ چند دنوں میں ہ وہ حماس کا وجود مٹا دیگا .
اس نے بربریت ظلم ا نسانیت سوزی عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے تمام ریکارڈ توڑ دئے ایک اندازہ کے مطابق اب تک غزہ میں ۲۵؍سے ۳۰؍ ہزار بیگناہ شہید ہو چکے ہیں جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے – بچوں کا قتل اسرائیل کی فلسطینیوں کی نسل کشی کی سازش کا حصّہ ہے لیکن اتنا لمبا عرصۂ گزر جانے کے باوجود نتن یاھو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا الٹے ساری دنیا میں اسکی تھو تھو ہو رہی ہے اور اس پر جنگی جرائم کے لئے مقدمہ چلانے کی آواز چاروں طرف سے آ رہی ہے –
جس اسرائیل نے تین عرب ملکوں کی منظم فوج کو ایک ہفتہ میں مفلوج کر دیا تھا وہی اسرائیل حماس جیسی ایک نیم عسکری تنظیم کو ڈھائی مہینوں سے جاری جنگ میں ختم کرنا تو درکنار جھکا تک نہیں سکا ہے بڑی ہوشیاری سے اسرائیل اپنے فوجیوں اور شہریوں کی اموات چھپا رہا ہے لیکن دنیا سمجھ رہی ہے کہ اسرائیل کا اسلحہ خانہ اور خزانہ دونوں خالی ہو چکا ہے غیر ملکی خاص کر یہودی لابی کی معاشی امداد سے وہ اپنے اخراجات پورے کر رہا ہے –
اب تو اسرائیلی میڈیا بھی بتا رہا ہے کہ نتن یاہو جنگی نقصان اور فوجیوں و شہریوں کی ہلاکت کو بہت کم کر کے بتا رہا ہے اور جو کوئی بھی سچائی سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے موساد کے ایجنٹوں سے اسے غائب کرا دیا جاتا ہے ایک سو سے زاید ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کا قتل خالی از علت تو نہیں ہو سکتا –
اپنے عوام سے اصلیت چھپانے کے لئے اسرائیل اپنے فوجیوں کی لاشوں کو اندرون ملک دفن کرنے کے بجائے دوسرے ملکوں کو بھیج رہا ہے گزشتہ ہفتہ ایک بحری جہاز سے قریب پانچ سو اسرائیلی فوجیوں کی لاشوں کو سائپرس لے جاتے ہوے دیکھا گیا تھا -نتن یاہو اور اسرائیل کے دوسرے لیڈران یہ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ کسی فرد یا کسی تنظیم کو تو ختم کیا جا سکتا ہے لیکن کسی نظریہ کسی جذبہ کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۱۹۱۷ء میں با الفورس اعلانیہ کے ساتھ ہی اسرائیلی دہشت گرد تنظم ہگانہ فلسطینیوں کا قتل عام کر رہی ہے ان کے سیکڑوں لیڈروں اور ہزاروں لڑاکوں اور اور بچوں سمیت لاکھوں شہریوں کو شہید کیا جا چکا لیکن ان کے جذبہ حریت اورشوق شہادت کو ختم نہیں کیا جا سکا ۔حماس کے چند برے لیڈروں کمانڈروں اور لڑاکوں کو شہید کر کے نتن یاہو یا کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ فلسطین کی جنگ آزادی کو ختم کر دیگا تو یہ ممکن نہیں ہے وہ احمقوں کی جنت کا بادشاہ ہی کہا جائے گی ۔
ٹارگٹ کلنگ یعنی اپنے دشمنوں کے لیڈروں اور کمانڈروں کو خفیہ طور سے قتل کرانا صیہونیوں کی پرانی جنگی حکمت عملی ہے جس کا سب سے پہلے استعمال انہوں نے نازیوں کے ان کمانڈروں اور فوجیوں کے خلاف کیا تھا جو ہٹلر کے اشارہ پر ہولوکاسٹ میں شامل تھے یہ لوگ کہیں بھی چھپے رہے ہوں صیہونی ایجنٹ انھیں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر قتل کر دیتے تھے ادھر ہگانہ یہی حکمت عملی فلسطینیوں پر استعمال کرتی تھی –
غزہ کی جگ میں ہزیمت سے بوکھلائے نتن یاہ یہی حکمت عملی اختیار کر کے اپنے عوام کو ناراضگی دورکرنے کی کوشش کی ہے جس کے تحت حزب اللہ حماس اور ایران کے کئی لیڈروں کو گزشتہ دنوں قتل کر دیا گیا لیکن یہ بیل الٹے نتن یاہو کے گلے پڑ گئی ہے اور انکی کابینہ میں ہی انکے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں اسرایلی کابینہ کی میٹنگ میں تین مہینوں سے جاری غزہ آپریشن میں کوئی کامیابی نہ ملنے سے اسرائیلی وزرا آپس میں ہی لڑ پڑے اور ہنگامہ کے دوران ہی کابینہ کی میٹنگ ملتوی کرنی پڑی –
ادھر امریکہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کا فوجی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور اسرائیل غزہ پر حملہ کر کے جو مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا وہ اس سے ابھی بہت دور ہے یہاں تک کہ وہ اپبے ١٣٠ یرغمالی بھی نہیں رہا کرا پایا ہے –
امریکی رپورٹ کے مطابق شمالی غزہ میں حماس کے ہزاروں جنگجو ابھی موجود ہیں جبکہ اسرائیلی بمباری سے وہ علاقہ ملبہ کا ڈھیر بن چکا ہے ۔خان یونس علاقہ میں جھڑپیں ابھی بھی جاری ہیں اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسکے ۱۲؍ ہزار سے زیادہ فوجی معزور ہو چکے ہیں جو اسرائیلی فوج پر ایک مستقل معاشی بوجھ ہونگے کیونکہ انہیں تا حیات پوری تنخواہ اور دیگر مراعات ملتی رہیں گی ۔
اسرائیل میں نتن یاہو کی احمقانہ اور جارحانہ حرکتوں سے اسرائیلی عوام میں نہ صرف انکے خلاف ناراضگی فضل رہی ہے بلکہ ان میں احساس عدم تحفظ بھی پیدا ہو رہا ہے خاص کر حماس کے ۷؍ اکتوبر کے حملے نے جس طرح اسرائیل کے سبھی دعووں کا ،کھوکھلا پن اجاگر کیا ہے اسکے بعد سے اسرائیل سے ترک سکونت کرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اتنا ہی نہیں پوروی دنیا میں جس طرح اسرائیل کی جارحانہ حرکتوں کے خلاف غصہ ابلا ہے وہ بھی ان تمام لیڈروں کے لئے چیلنج بن گیا ہے جوا سرایل کو اپنی دفاع کا حق ہے کہہ کر اسکی انسانیت سوز حرکتوں کی حمایت کر رہے تھے.
امریکہ کےصدر جو بائیڈن کو اپنے عوام ہی نہیں سابق فوجیوں کا غصّہ بھی سر عام جھیلنا پڑا پورا امریکہ انھیں غزہ میں معصوموں کے قتل عام کا شریک مجرم سمجھ رہا ہے الیکشن کے اس سال میں بائیڈن کوامریکی عوام کی یہ ناراضگی بھاری پڑ سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ اب وہ نہ صرف غزہ میں جنگ بندی اور انسانی امداد کی باتیں کرنے لگے بلکہ دو مملکتی فارمولہ کے تحت فلسطین کا مسئلہ بھی حل کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔
گزشتہ دنوں اسرائیل نے غزہ سے باہر جو کارروائی کی ہے اس سے بھی امریکہ ناراض ہے اس کے خارجہ سیکرٹری بلنکں نے اسرائیل کا دورہ منسوخ کر دیا ہے اور اسرائیل کو جنگ کا دائرۂ وسیع نہ کرنے کی تلقین کی ہے ۔فرانس جرمنی اور کناڈا کی حکومتوں نے بھی اسرائیل کو جنگ کا دائرۂ وسیع کرنے کے خلاف آگاہ کیا ہے لیکن مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر…
اسرائیل پر حماس کے حملے نےموجودہ عالمی نظام کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد امریکہ واحد سپر پاور بچا تھا روس اپنے زخم چاٹ رہا تھا مگر رفتہ رفتہ وہ سنبھلنے لگااور پوتن کی قیادت میں پلٹ کر وار کرنے کی پوزیشن میں آ گیا امریکہ ناٹوکو روس کی سرحد تک پھیلا کر اسکی گردن پر ہاتھ رکھنا چاہتا تھا اس کے لئے اس نے یوکرین کو مہرہ بنا کے اسے پٹوا دیا
امریکہ نے روس کو جس طرح یوکرین میں گھیرنے کی کوشش کی تھی اب روس نے اسی طرح امریکہ کو اسرائیل میں گھیر لیا ہے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اسرائیل کی حمایت کیلئے بھیجے گئے امریکی بحری بیڑے کے جواب میں چین نے بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دیا روس کے اشارے پر شمالی کوریا نے امریکہ اور اسرائیل کو آگاہی دیا تو جنوبی کوریا اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشق میں چین نے اپنا بحری بیڑا اتار دیا مطلب امریکہ بھی گھرتا چلا جا رہا ہے روس چین شمالی کوریا اور ایران مل کر اسرائیل اور امریکہ دونوں کو گھیر رہے ہیں
۔کہنے کو تو نتن یاہو نے ٹارگٹ کلنگ کے ذریعہ حماس اور ایران کے جن بڑے لیڈروں کو قتل کیا اور لبنان پر ڈ رون سے حملہ کر کے جنگ کے دائرۂ کو وسیع کرنے کی حماقت کی اس سے ناراض ہو کر بائیڈن نے بحر میڈیٹرین میں تعینات اپنے دونپوں بحری بیڑے واپس بلا لئے ہیں مگر اصل وجہ روس چین شمالی کوریا اور ایران کی مشترکہ اسٹریٹجک شراکت ہے جو نہ صرف امریکہ کی عالمی چودھراہٹ کے لئے خطرہ بن گئی ہے بلکہ حقیقی معنوں میں اسرائیل کے وجود کے لئے خطرہ پیدا ہو گیا ہے حماس کا اسرائیل کے وجود کو ہی تسلیم نہ کرنے کے اپنے دیرینہ موقف کا اعا دہ اسی گٹھ جوڑ کی پشت پناہی سے مل رہی طاقت ہے ۔جو منظر نامہ ابھر رہا ہے اس میں سب سے بری حالت ان عرب اور اسلامی ملکوں کی ہوگی جنکی مصلحت کوشی بزدلی اور بے حمیتی سے فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔