بالآخر کانگریس پارٹی نے صاف کردیا ہے کہ ۲۲؍جنوری کے روز ایودھیا میں ’رام مندر‘ کی افتتاحی تقریب میں اس کا کوئی بھی لیڈر یا عہدیدار شرکت نہیں کرے گا ، نہ سونیا گاندھی جائیں گی ، نہ ہی راہل اور پرینکا گاندھی اور نہ ہی صدر کانگریس ملکارجن کھڑگے ۔
پہلے جو خبریں آرہی تھیں اُن کے مطابق کانگریس میں کچھ لوگ اس پر زوردے رہے تھے کہ ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنا چاہیئے ، یہ بھی کہا جارہا تھا کہ سونیا گاندھی ایودھیا جاسکتی ہیں اور اگر سونیا گاندھی نہ گئیں تو کانگریس کا ایک نمائندہ وفد تقریب میں شرکت کے لیے جائے گا ۔
ویسے کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے مذکورہ خبروں کی کوئی تصدیق نہیں کی تھی ، لیکن ایسا کہا جارہا تھا کہ لوک سبھا کے آئندہ انتخابات کے پیش نظر کانگریس کی قیادت رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا فیصلہ کرسکتی ہے ۔ ’مسئلہ‘ یہ تھا کہ ہندوووٹر کہیں ناراض نہ ہوجائیں!
دراصل کانگریس میں ایک ایسا گروپ ہے جو بظاہر تو ’سیکولر‘ ہے لیکن بباطن ’ فرقہ پرست‘ یہ گروپ مسلسل کانگریس کی قیادت کو ایسے مشورے دیتا رہا اور مشوروں کو منواتا رہا ہے جن پر عمل سے فرقہ پرستی کی جڑیں تو مضبوط ہوئی ہیں لیکن کانگریس کمزور ہوئی ہے ، اور اس کمزوری نے بی جے پی کو طاقت بخشی ہے ۔
جب آنجہانی راجیوگاندھی وزیراعظم تھے تب ایسے ہی گروپ نے انہیں ایودھیا میں بابری مسجد کا تالا کھلوانے اور شیلانیاس کروانے کا مشورہ دیا ، اور اس مشورے پر عمل کا جو نتیجہ نکلا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ شیلانیاس کے بعد ہی سے رام مندر کی تحریک نے زورپکڑا ، رتھ یاترائیں نکالی گئیں اور فرقہ وارانہ تشدد میں بے شمار لوگوں کی جانیں گئیں اور بالآخر بابری مسجد شہید کردی گئی۔ شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر بھی بن گیا ہے ۔
راجیوگاندھی کو مشورہ دینے والوں میں ایک نام ارون نہرو کا لیا جاتا تھا ۔ بعد کے دنوں میں ایسے ہی مشورے سونیا گاندھی کو دیے جاتے رہے ۔
ایسے ہی ایک مشورے کے مدنظر راہل گاندھی نے ایک الیکشن کی انتخابی مہم کا آغاز ایودھیا سے کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ کانگریس کی فرقہ پرستی چاہے وہ ’نرم‘ ہو یا ’سخت‘ کبھی بھی بی جے پی کی فرقہ پرستی پر غالب نہیں آسکتی ، اس لیے کانگریس ہمیشہ خسارے میں ہی رہی ۔
خسارہ بھی کوئی معمولی نہیں ، ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کے روز بابری مسجد شہید کی گئی ، تب سے لے کر اب تک کانگریس اترپردیش (یوپی) میں اقتدار میں نہیںآئی ہے ، جبکہ آنجہانی ملائم سنگھ یادو کارسیوکوں پر گولیاں چلوانے کے بعد بھی اقتدار میں آئے تھے ۔ اس لیے کہ انہوں نے اُس وقت فرقہ پرستی کا جواب واضح سیکولرازم سے دیا تھا، اور فرقہ پرستی کا جواب سیکولرزم ہی سے دیا جاسکتا ہے ۔
کانگریس کے صدر کھڑگے نے اس بار صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ۲۲؍ جنوری کو ایودھیا میں جو تقریب کی جارہی ہے وہ آر ایس ایس کی تقریب ہے اور اس میں کانگریس حصہ نہیں لے سکتی ہے ۔ یہی درست طریقہ ہے فرقہ پرستی اور فرقہ پرستوں سے لڑنے کا ۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے پہلے ہی ایودھیا نہ جانے کا اعلان کردیاتھا۔ اب بھلے بی جے پی والے کانگریس کو کوسیں اور بھلے ہی کہیں کہ کانگریس رام مندر کی تقریب کا بائیکاٹ کررہی ہے ،کانگریس نے جو قدم اٹھایا ہے اس پراسے جمے رہنا ہوگا ۔
رام مندر کی افتتاحی تقریب صرف اور صرف سیاسی ہے ، اس کا مقصدآنے والے لوک سبھا کے الیکشن میں ووٹوں کا حصول ہے ، اس کا جواب کانگریس کو اسی انداز میں دینا ہوگا ۔ اور کانگریس نے ایودھیا نہ جانے کا اعلان کرکے جواب دینا شروع کردیا ہے ۔ دیرآید درست آید۔