پریاگ راج : بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر منور رانا کے انتقال سے دنیائے شعر و ادب میں سوگ کا ماحول ہے۔ شہر الہ آ باد کے مشہور و مقبول شاعر ڈاکٹر اسلم الہ آبادی نے بتایا کہ منور رانا نے بہت بعد میں شاعری کے میدان میں قدم رکھا اور سب سے آگے نکل گئے۔
ان کی شاعری عوامی شاعری تھی۔ زبان بھی عام بول چال کی تھی۔ وہ اپنا قافیہ اپنی جیب میں رکھ کر چلتے تھے۔ اللہ نے انھیں صاحبِ حیثیت بنا یا تھا، جو مشاعرہ میں ان کی مقبولیت میں قدم قدم پر معاون ثابت ہوتی رہی۔ منور نے پوری زندگی غزلوں میں ماں کا احترام اور اس کی محبت کے گُن گائے۔ یہ جذباتی لگائو عوام کو خوب پسند آیا اور لفظ ’’ماں‘‘ ان کے نام سے ایسا جُڑا کہ وہ ان کی پہچان بن گیا۔
پورے ہندوستان میں مشاعرہ کے شاعر ان کے قدم سے قدم ملا کر چلنے لگے۔ یہ سلسلہ دو دہائی سے چلتا چلا آرہا ہے اور آج بھی نئے شاعر ماں کا مضمون ضرور باندھتے ہیں۔ اسلم الہ آبادی نے مزید کہا کہ وہ ہمارے دوست تھے اور تقریباً بیس برس ان کے ساتھ خوب مشاعرے پڑھے۔ خدا ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔
ممتاز شاعر اختر عزیزی نے بتایا کہ سنگ مرمر کے کاروبار کے سلسلہ میں منور رانا کئی برس پریاگ راج (الہ آباد) میں مقیم رہے۔ کاٹجو روڈ واقع ہوٹل ریگینا میں وہ قیام کرتے تھے۔کسی زمانہ میں ادیبوں اور شاعروں کا مرکز کہے جانے والے ’’اورینٹ کیمسٹ‘‘ پر عتیق الہ آبادی، اسلم الہ آبادی، ایڈوکیٹ قمر الحسن صدیقی ، میں اور دیگرلوگ دیر رات تک ان کے ساتھ محوِ گفتگوو رہتے۔
عتیق الہ آبادی سے خصوصی طور پر ان کی گہری دوستی تھی۔ ۱۹۹۸ء میں انجمن تہذیبِ نو کے زیرِ اہتمام منعقدہ جشنِ عتیق الہ آبادی کے موقع پر شائع ہوئے سووینئیر میں منور رانا کا مضمون ’’الہ آباد آنا ہم تمھیں سنگم دکھائیں گے‘‘ ادبی حلقہ میں خاصا پسند کیا گیا۔ اختر عزیز نے مزید کہا کہ مجھے ان کے ساتھ متعدد مشاعروں میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔
ان کے انتقال سے اردو شاعری کو بڑا نقصان ہوا ہے۔ میں ان کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔ معروف مزاحیہ شاعر فرمود الہ آبادی نے بتایا کہ سلطان پور میں ’’خورشید کلب‘‘ کے زیرِ اہتمام کئی مشاعروں میں منور رانا کے ساتھ شرکت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ انھیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ اردو گھر کے سکریٹری اور نوجوان ادیب و شاعر ڈاکٹر حسین جیلانی نے کہا کہ وہ نہ صرف بہ حیثیت شاعر ادبی دنیا میں مشہور تھے بلکہ ان کی نثری تحریریں بھی خاصی مقبول ہوئیں۔
مشاعرہ کی دنیا میں ان کا بڑا نام تھا۔ مختلف ممالک میں منعقدہ مشاعروں میں انھوں نے ہندوستان کی بھرپور نمائندگی کی۔ ان کی کچھ چنیدہ د تخلیقات کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوا۔ سنہ ۲۰۱۴ء میں انھیں ساہتیہ اکادمی ایوراڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ میں انھیں اپنی تعزیت پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ان کے حق میںدعائے مغفرت کرتا ہوں۔