لکھنؤ: اردو کے مقبول شاعر وادیب منوررانا کے انتقال پر متعدد اداروں اورشخصیات نے اپنے رنج وغم کااظہار کرتے ہوئے انہیں جزباتی خراج عقیدت پیش کیا ہے۔تعزیتی جلسوں میں ان کے کارناموں کویادکرتے ہوئے متعلقین سے اظہار تعزیت کیاگیا ہے۔
ثاترپردیش اردو اکادمی میں ایک تعزیتی جلسہ سکریٹراردو اکادمی ایس۔ایم۔ عادل حسن کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر ایک تعزیتی قرارداد منظورکی گئی جس میں کہاگیا کہ منور رانا عہد حاضر کے بڑے اور قد آور شاعر تھے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ اپنی شگفتہ نثر سے بھی اردو ادب کو وقار بخشا۔ منور رانا کا مہاجر نامہ ہجرت کے تناظر میں لازوال کارنامہ ہے۔
اس کے علاوہ ماں کے تعلق سے کہے گئے اشعار نے ان کو شہرت کے بام عروج پر پہنچایا۔ وہ ہندی اور اردو حلقوں میں یکساں مقبول تھے ۔ ان کے کلام کے دیگر ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوئے۔منور رانا نے نیم کے پھول، غزل گاؤں ، ماں ، بغیر نقشہ کا مکان ، کہو ظل الٰہی سے، چہرے یاد رہتے ہیں، جنگلی پھول، میر آکے لوٹ گیا جیسی تصانیف یا دگار چھوڑی ہیں جو اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں ۔
منور رانا اکادمی میں صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے، مدت کار اگر چہ کم تھی لیکن اس قلیل مدت میں اکادمی سے امداد پانے والے مصنفین کی پینشن دوگنا کردی تھی جس کی ادبی حلقہ میں کافی ستائش ہوئی۔ تعزیتی جلسہ میں عصر حاضر کے مشہور شاعر منوررانا کے انتقال کو ایسا نقصان قرار دیا گیا جس کی تلافی ممکن نہیں ۔
مرحوم کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہوئے ان کے ورثاء کی خدمت میں دلی تعزیت پیش کی گئی۔اس موقع پر سپرنٹنڈنٹ معاذ اختر احسن، اکاؤنٹنٹ ممتاز احمداور ڈاکٹر مخمور کاکوروی نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے مرحوم کے درجات بلند کرنے کے لئے یاد گار خداوندی میں دعا کی۔
ث امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسڈیز کے ہیڈ ڈاکٹراحتشام احمد خان کی صدارت میں انسٹی ٹیوٹ میںمنوررانا کے انتقال پرایک تعزیتی جلسے کاانعقاد کیاگیا۔ ڈاکٹراحتشام احمد خان نے منوررانا کے انتقال پراپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ۔
انہوں نے کہا کہ جانا یوں تو سبھی کو ہے لیکن کچھ جانے والے ایسے ہوتے ہیں جن کا گزر جانا صدیوں کا درد و غم دے جاتا ہےادبی تنظیم’ شہرادب‘ کے جنرل سیکریٹری پرویزملک زادہ نے کہا کہ منور بھائی کا بچھڑ جانا اردو ادب اور شاعری کا ناقابل تلافی نقصان تو ہے ہی ہے ان کا ذاتی نقصان بھی ہے ۔ عالمی سطح پر اردو شاعری میں اپنی شناخت رکھنے والا ایسا ہنس مکھ ، بات بات پر ہنسانے والا دوست اوربھائی منور رانا ہمیں رُلا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ منور رانا شہرت اور مقبولیت کی بلندی پر پہنچ کر بھی اپنی انکساری کو کبھی نہیں بھولے۔ ہر سے ایک خاص انداز اور محبت سے وہ ملتے تھے اور ان سے جو بھی ملتا تھا وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔ پرویزملک زادہ نے کہاکہ منور بھائی سے ان کے گھریلو تعلقات تھے ،وہ اکثر اپنے دل کی بات کیا کرتے تھے اور پرانی یادوں کو خصوصاً والد محترم پروفیسر ملک زادہ منظور احمدکے ساتھ گزارے ہوئے وقت کویاد کیاکرتے تھے۔
سدرہ ایجوکیشنل اینڈویلفیئرسوسائٹی کے جنرل سیکریٹری ضیاء اللہ صدیقی نے کہا کہ منوررانا کی شاعری میں فکر وفلسفے کے ساتھ ساتھ ہماری عام زندگی کے عناصر بھی واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹرارشاد احمد خان بیاروی، رفیع احمد،ڈاکٹرسید محمدصبیح ندوی،مولانا عبدالکریم ندوی،صحافی ہمایوں چودھری ، سیداعزازحسین وغیرہ نےبھی اپنے تاثرات کااظہارکیا۔
ثمدرسہ جامعۃ الحسنات للبنات دوبگا میں اردو کے معروف شاعر منوررانا کیلئے دعائے مغفرت اور تعزیت کا جلسہ منعقد ہوا۔اس موقع پر جامعہ کے بانی وناظم ڈاکٹر محمد سعیداللہ ندوی نے کہا کہ منور رانا ایک عہد ساز شخصیت کے حامل تھے آپ ایک اچھے شاعر اور انشاء پرداز تھے ہمارے ادارہ سے خاص تعلق تھا اور وقتاً فوقتاً ادارہ میںآکر اپنےاچھے مشوروں سے نوازتے رہتے تھے یقینا ان کی کمی ادارہ شدت سے محسوس کرے گا۔
ثکانگریس پارٹی اقلیتی سیل کے قومی کو آر ڈینیٹر محمد شمیم خان نے منور رانا کے انتقال پر تعزیت پیش کی ہے ۔ محمد شمیم خان نے کہا منور رانا کے انتقال سے ملت کو ناقابل تلافی نقصان پہونچا ہے ۔منور رانا نے اپنی شاعری سے اردو زبان کو فروغ دیا ۔ آپ نے اپنی شاعری سے بڑے بڑ ے سیاست داں کو اپنی طرف راغب کیا ۔وہ بہت ہی بیباک اور خوش اخلاق شاعر تھے ۔
ثبزمِ وقار ِ ادب کے جنرل سکریٹری قمر سیتاپوری نے عالمی شہرت یافتہ شاعر و ادیب منور رانا کے انتقال پر اظہارِ تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ منور رانا کا انتقال اردو ہندی شعر و ادب کا ایک بڑا خسارہ ہے ۔ منور رانانے شاعری کے حوالے سے ہندوستان کا نام پوری پوری دنیا میں روشن کیا۔ انقلابی شاعر شمسی مینائی کے بعدمنور رانا واحد شاعر تھے جو حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر گفتگو کرنے کا سلیقہ جانتے تھے۔
مرحوم اچھے شاعر انسان ادیب کی حیثیت سے دیر تک یاد رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبر جمیل اور مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
ثدبستانِ اہلِ قلم کے تحت ایک تعزیتی نشست محشر گونڈوی کی رہائش گاہ بنٹی اپارٹمنٹ کٹرہ ابوتراب نخّاس لکھنؤ میں منعقد ہوئی جس کا آغاز حافظ عبد السمیع نے تلاوت کلام ربانی سے کیا۔ نظامت کے فرائض معید رہبر لکھنوی نے انجام دئے۔
صدر نشست ڈاکٹر مخمور کاکوروی نے عالمی شہرت یافتہ شاعر منور رانا کے انتقال پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا مرحوم جب اتر پردیش اردو اکادمی کے صدر ہوئے تو شعراء کی پینشن پندرہ سو روپئے ماہانہ تھی انہوں نے اسے بڑھا کر تین ہزار کرنے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے کہا اتنا بجٹ نہیں ہے تو وہ گویا ہوئے کہ اگر بجٹ نہیں بڑھتا ہے تو اضافی رقم پندرہ سو روپئے میں اپنی جانب سے دے دوں گا شعراء کی پنشن تین ہزار روپیہ ماہانہ کردی جائے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اردو ادب اور اردو کے خادمین سے کتنی ہمدردی تھی-
سینئر صحافی اور شاعر جاوید قمر نے کہا اردو کے حوالے سے گونجنے والی ایک معتبر آواز خاموش ہو گئ وہ مصلحت پسندی سے کوسوں دور تھے بیباکی ان کا ایک خاص وصف تھا یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ ان سے ناراض بھی رہتے تھے-حافظ عبدالسمیع وفا نے اپنے اظہار خیال میں کہا منور رانا کی وہ شخصیت کہ جس نے اپنی زندگی کی آخری سانس ہندوستان کی تقسیم کے درد کو سناتے رہے-
میزبان محشر گونڈوی نے اپنے بیان میں کہا کہ منور رانا کی شاعری میں رشتوں کا احساس بھرپور ہے اور جتنے اشعار انہوں نے ماں کی عظمت پر کہے ہیں وہ ان کا ہی خاصہ ہے-
ناظم نشست معید رہبر لکھنوی نے کہا کہ منور رانا جیسے قلندرانہ صفت شاعر بہت کم ہوتے ہیں-صحافی سلمان کبیر نگری نے کہا ان کی اردو خدمات کے لئے بڑے پیمانے پر انہیں پہچانا جاتا تھا-شرکاء میں درد فیض خان، سید اظہر حسین، منہاج صفی پوری موجود تھےآخر میں مرحوم منور رانا، و چودھری شرف الدین کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔
ث ارم ایجو کیشنل سوسائٹی کے خواجہ یونس آڈیٹوریم میں ایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد سوسائٹی کے منیجر ڈاکٹر خواجہ بزمی یونس کی صدارت میں ہوا ۔جس میں منور رانا کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔
تعزیتی جلسہ میں منوررانا کے انتقال کو شعرو ادب کے ایک سنہری باب کاخاتمہ بتایا گیا ۔تعزیتی جلسہ میں ڈاکٹر خواجہ بزمی یونس ،خواجہ فیضی یونس،خواجہ سیفی یونس ، اور محمد عارف نگرامی نے منور رانا کی شاندار اور ناقابل فراموش ادبی ، و شعری خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ منور رانا بنیادی طور پر ایک حقیقت نگار شاعر تھے ۔
انھوں نے بڑے درد و کرب کے ساتھ سماجی حقیقتوں سے قاری و سامع کو روبرو کرایا ۔انھوں نے کہا کہ منور رانا ارم ایجو کیشنل سوسائٹی کے بانی و سابق منیجرڈاکٹر خواجہ یونس سے خاص تعلق تھا ۔
مرحوم ایجوکیشنل سوسائٹی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی سہ ماہی و ادبی و شعری نشستوں میں پابندی کے ساتھ شرکت کیا کرتے تھے ۔ تعزیتی جلسہ میں ڈاکٹر طارق حسین ، پروفیسر عبدالحلیم قاسمی ، میڈم سحر سلطان ، ڈاکٹر عائشہ عباسی ، خلیق احمد خان ، محمد عارف نگرامی ، کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں ارم انسٹی ٹیوشن کی طالبات ،ٹیچرس، اور آفس کے افراد نے شرکت کی ۔