دیوبند: عالمی شہرت یافتہ شاعر ادیب اور مشہور ومعروف بزنس مین منور رانا کے انتقال کی خبر آنے کے بعد سے دیوبند کے ادبی، علمی، تعلیمی اور سماجی حلقے سخت صدمہ میں ہیں ان کے انتقال کو دیوبند کی ادبی وعلمی شخصیات نے اردو دنیا کا بڑا سانحہ اور ناقابل تلافی خسارہ بتایا ہے۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر اور اتر پردیش اردو اکادمی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر نواز دیوبندی نے منور راناکے انتقال پر گہرے صدمہ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منور رانا گوناگوں صفات والی شخصیت تھے، وہ کامیاب کاروباری ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر، ناقد اور نثر نگار بھی تھے اور کئی زبانوں پر اپنی پکڑ رکھتے تھے۔
اللہ نے گفتگو کا سلیقہ اور جو شعور انہیں عطا کیا تھا وہ کم لوگوں کے مقدر میں آتا ہے۔ ان کی شاعری میں جو لوچ اور مقناطیسیت تھی وہ ہمیشہ بے مثال رہے گی۔
ماں پر کہے گئے ان کے اشعار ہوں یا محاجر نامہ جیسی شعری تخلیق کا سلگتا لاوا انہیں مخصوص تراکیب کے آئینے میں دیکھنے کو مجبور کرتا ہے ۔منور رانا کو سیکڈوں اوارڈ ملے ہوئے تھے جن میں ساہتیہ اکیڈمی اوارڈ ،امیر خصرو اوارڈ،میر تقی میر اوارڈ،مرزا غالب اوارڈ،ذاکر حسین اوارڈ،کبیر اوارڈ اور میر اوارڈ قابل ذکر ہیں ۔حکومت کو اوارڈ لوٹاکر انہوں نے حب الوطنی کا جو جزبہ دکھایا جو پیغام دیا اس کے لئے بھی انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
انکی مقبول کتابوں میں منور نامہ،ماں،فنک لال،گھر اکیلا ہو گیا ،ڈھلان سے اترتے ہوئے ،میر آ کے لوٹ گیا ،سفید جنگلی کبوتر ،بغیر نقشے کا مکان ،رخصت کرو مجھے ،سخن سرائے ،غزل دریچہ ،پیپل چھائوں،غزل گاؤں ،بدن سرائے،مور پاؤں، شہدابہ،پرم پراگت ورن ویوستھا اور دلت ساہتیہ،نئے موسم کے پھول،سب اس کے لئے ،کہو ظل ا لہی سے،چہرے یاد رہتے ہیں ،جنگلی پھول ،قامت،چہار سو اور تین شہروں کا چوتھا آدمی وغیرہ میں سے بیشتر کتابوں کا بانگلہ اور دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے ،
ڈاکٹر نواز دیوبندی نے کہا کہ ان کے ادبی کارنامے ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان ولواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
معروف ادیب و قلم کار سید وجاہت شاہ نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ 26 نومبر1952 کو رائے بریلی اتر پردیش میں پیدا ہونے والے اور بی کام تک تعلیم حاصل کرنے والے منور راناکی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ بیرون ملک امریکہ میں بھی جشن منور رانا کے نام سے کئی پروگرام منعقد ہوئے ہیں ۔
طبیعت ناساز رہنے کے باوجودبھی ان میں نوجوانوں جیسا جوش رہتا تھا وہ تخلیقی عمل کے مرحلہ میںزمان و مکان کی حدود کے تعین کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے ۔
وہ زہنی تصویروں کو جزبے کی زبان دیکر اپنے نگار خانہ فن میں سجانے کا ہنر رکھتے تھے ۔منور رانا نے سال 2009میںانہیں بطور تحفہ اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک تحریر بھی پیش کی تھی ۔حق تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا ء فرمائے آمین ۔
معروف شاعر و کوی ڈاکٹرشمیم دیوبند ی نے کہا کہ یقینا اردو شاعری کی دنیا اور مشاعروں کا ایک بڑانام، ادیب اور شاعر رخصت ہوگیا ہے، انہوں نے تمام دینی وعصری اداروں کے ذمہ داران سے ایصال ثواب کا اہتمام کرنے کی گزارش کرتے ہوئے کہا کہ منور رانا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم انسان تھے، انہوں نے ہمیشہ اپنی شاعری کے توسط سے انسانیت کو بڑے بڑے پیغامات دئیے، موجودہ نسل نو کے لئے ان کی شاعری مشعل راہ ہے۔
معروف شاعر ماسٹر شمیم کرتپوری نے رنجو غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منور رانا ہر وقت ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھتے رہے جہاں ظلم وزیادتی کے لئے کوئی جگہ نہ ہو ، منور رانانہ صرف ایک عظیم شاعرتھے بلکہ وہ شاعری اور مشاعروں کی دنیا میں ایک الگ منفرد شناخت رکھنے والے انسان تھے، جنہوں نے اپنے انداز کی شاعری سے مشاعروں کو نئے قلب وقالب میں ڈھالا۔
انہوں نے پسماندگان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے مرحوم کے لئے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کی مسلم فنڈ ٹرسٹ دیوبند کے منیجر سہیل صدیقی نے منور رانا کی موت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ منور رانامنفرد انداز کی شخصیت کے علاوہ پرکشش لب ولہجہ کے مالک تھے، وہ بہترین شاعر، زبان شناس اور مشاعروں کے بے تاج بادشاہ تھے، ان کی موت سے اردو تہذیب کے ایک روشن عہد کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے شعر وسخن کو نئے قلب وقالب میں ڈھالا جس کے لئے دنیا انہیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔
انہوں نے جملہ پسماندگان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کی۔معروف شاعر اور اترا کھنڈ اردو اکیڈمی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر افضل منگلوری نے منور راناکی موت پر صدمہ اور افسوس نیز تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منور راناکی زندگی کا ہر پہلو نسل نو کے لئے ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے منور راناکے انتقال سے پوری دنیا کے اردو ادبی حلقوں میں رنج وغم کی کیفیت ہے۔
افضل منگلوری نے کہا کہ وہ منور راناکی شاعری سے زیادہ ان کے حسن اخلاق سے بے حد متاثر تھے۔ ان کی سادہ لوح شخصیت، عام آدمی سے بھی دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ ان کی ملاقات کون فراموش کرسکتا ہے، سادگی ان کی سرشت میں شامل تھی۔
معروف قلم کارپروفیسر تنویر چشتی نے اظہار غم کرتے ہوئے کہا کہ منور راناجیسا خلیق انسان ہی ایسی عظمت کا حقدار ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشاعروں کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی وہ منور رانا کے تذکرہ کے بغیر ادھوری رہے گی۔
ان کے علاوہ ندیم شاد، تنویر اجمل ،شمش دیوبندی ،راز دیوبندی،ندیم انور،گلزار بیگ جگر ،ڈاکٹر عدنان انور،دلشاد خوشتر،مہتاب آزاداور دیگر مقامی نمائندہ شاعروں ادیبوں نے منور راناکے سانحہ ارتحال کو اردو ادبی دنیا کے عظیم خسارہ سے تعبیر کیا اور کہا کہ اہل دیوبند کے دلوں میں منور رانا ہمیشہ زندہ رہیں گے اردو ادب اور اردو تہذیب کے حوالہ سے وہ ہمیشہ ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے۔