خاموش طبیعت کے مالک ہوں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے مگر بعض بچوں کا بہت کم بو لنا اوردوسرے لوگوں سے زیادہ گھل مل نہ پانا پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔ خاموش طبیعت اگر عادت بن جائے تو بچے سوشل فوبیاکے شکار بھی ہو سکتے ہیں سب سے پہلے توان اسباب کا پتہ لگائیں کہ بچہ کم کیوں بولتاہے اس کا نیچر ایسا کیوں بن گیا ہے لہذا اسے اظہار خیال میں دقت محسوس ہوتی ہے بچہ شرم کے مارے کچھ نہیں بول رہا ۔بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں قدرتی طور پر بدلتے جاتے ہیں اگر عمر کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلی نہیں آرہی ہے توغور کرنے کی ضرورت ہے ۔
آج کل زیادہ تر بچے حاضر ٹوہوا ب اور ہر معاملہ میں سرگرم ہوتے ہیں ایسے میں بچہ کا خاموش طبیعت ہونا اس کی ترقی میں رکاوٹ ہوسکتاہے خاموش طبیعت کی وجہ سے کئی بچے تنہا پسند ہوجاتے ہیں دل میں جو بھی سوالات ہوتے ہیں ان کے بارے میں کھل کر نہ تو بتاپاتے ہیں اور نہ ہی سوال کر تے
ہیں یہ مسئلہ آگے چل کر ان کی پور ے شخصیت کو متاثر کر تاہے اس لئے شروع سے ماں باپ ایسی باتوں پر غور کریں یہ بہت ضروری ہے ۔بچوں میں خود اعتماد پیدا کریں انہیں بے وجہ ڈرا ئیں دھمکا ئیں نہیں کیونکہ والدین کے ایسے رویے کی وجہ سے بھی بچے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتے وہ اپنے دل کی بات دل میں دبا کر رکھتے ہیں بات بات میں بچوں کو جو کنا اور انہیں ہر بار غلط ثابت کرنے سے بھی وہ اپنی باتیں اپنی سوچ شیئر کر نا بند کر دیتے ہیں دھیر ے دھیرے ان کی یہ عادت ان کے رویے میں آجا تی ہے اور انہیں خاموش طبیعت کا مالک بنادیتی ہے ۔
خاموش رہنے والے بچے گھر باہر کہیں بھی کسی سے بھی کھل کر بات نہیں کر پاتے اور دوسرے بچوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں ۔قابل ہونے کے بادجو د اظہار خیال نہ کرپانے کی وجہ سے وہ جلن اورحسد جیسی بیماری کا بھی شکار ہوجاتے ہیں ۔
کئی بار خاند انی ماحول بھی بچوں کو خاموش طبیعت کا بنا دیتاہے آج کل زیادہ تر والدین ملازمت پیشہ ہیں ایسے میں کئی بچے دن بھر گھر میں اکیلے ہی رہتے ہیں ان کی عادت ہی نہیں رہتی کہ وہ کسی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کریں کئی بار تو بڑے ہونے پر چاہنے کے باوجود بھی وہ اپنے مزاج کو تبدیل نہیں کر پاتے ۔اس لئے جتنی جلد ممکن ہوسکے ماں باپ کو ایسی باتوں پر توجہ دینا چاہئے آپ دونوں ملازمت پیشہ ہیں تو بھی بچوں کے لئے وقت نکالنا چاہئے ان سے بات کر نی چاہئے ۔
بچوں کو کبھی بھی غصے میں الٹا سیدھا نہ بولیں انہیں غلط طریقے سے مخاطب نہ کریں نہ ہی انہیں بات بات میں سزا دیں ۔جو والدین اپنے بچوں کے ساتھ ایسا برتائو کر تے ہیں وہ بچے بالکل چپ رہنے لگتے ہیں وہ اپنی بات کہنے سے پہلے ہی والدین کے ردعمل کے بارے میں سوچ کر سمے رہتے ہیں بچے کوئی سوال کریں تو عمر کے حساب سے انہیں صحیح بات سمجھانے کی کوشش کریں انہیں ٹالیں نہیں اورنہ ہی غلط جواب دے کر گمراہ کریں کیونکہ اس طرح ان کو ملنے والی معلومات اگر الگ الگ اور گمر اہ کن ہوں گی تو وہ خاموش رہنا شروع کر دیں گے ۔