لکھنؤ۔(نامہ نگار)کہتے ہیں کہ ہوا کا رخ دیکھ کر سیاست کی جاتی ہے ۔ سیاست داں کبھی اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں تو کبھی نقصان بی جے پی کی اگر بات کی جائے تو کل تک پارٹی ترقی میں ریزرویشن کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوئی تھی لیکن جیسے ہیں الیکشن کا موقع آیا تو پارٹی دور ہوگئی ۔ بی جے پی کے اس قدم سے ریزروویشن کے حامی اور مخالفین دونوں ناراض ہوگئے ہیں ۔ دونوں گروپوں نے انتباہ دیا ہے کہ بی جے پی اپنا رخ واضح کرے ورنہ اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ سرو جن ہتائے سنرکشن کمیٹی کے صدر شیلیندر دوبے نے کہا کہ بی جے پی کو یہ مدعہ اہم لگ ر
ہا ہو۔ لیکن موجودہ حالات ریاست میں سبکدوش اور موجودہ ملازمین وافسران کی تعداد تقریباً ایک کروڑ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی صدرنے ۱۵؍اپریل تک کی مہلت مانگی ہے۔ اس کے بعد اگر بی جے پی نے مطالبے کی حمایت نہیں کی تو الیکشن کے باقی مرحلوں میں ہونے والے انتخاب میں اس کی مخالفت کی جائے گی۔ بی جے پی نے بڑی صفائی سے اپنے انتخابی منشور میں سرکاری ملازمتوں میں ترقی میں ریزویشن میں مدعہ سے کنارہ کشی کرلی ہے۔ کل تک اس مدعاپر بی جے پی بی ایس پی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی تھی۔ جبکہ بی جے پی نے انتخابی منشور میں اس مدعے کو غائب ہی کردیا ہے۔ بی جے پی کے اس قدم کی ریزرویشن حامی اور مخالف دونوں نے مذمت کی ہے۔ ریزویشن حامیوں نے متنبہ کیا ہے کہ انتخابات میں بی جے پی کی مخالفت کی جائے گی۔ اگر ایسے حالات رہے تو مودی لہر پر سوار بی جے پی کو زبردست نقصان ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ سرکاری ملازمتوں میں ترقی میں ریزرویشن کا مدعہ بی جے پی کی ہی دین ہے۔ ۲۰۰۷میں سابق وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے ہی ترقی میں ریزرویشن کو منظوری دی تھی۔ جب اس کی سیاسی حلقوں میں مخالفت ہوئی تو این ڈی اے پوری طاقت سے اس مدعا پر بضد رہا۔ اس کے بعد ۲۰۰۳میں سابق وزیراعلیٰ مایاوتی نے ترقی میں ریزرویشن کے مدعے کو مختلف پلیٹ فارموں پر شدت سے اٹھایا اور اسے ضروری قرار دیتے ہوئے سرکاری محکموں میں نافذ کردیا۔ واضح رہے کہ مایاوتی حکومت بی جے پی کی حمایت سے وجود میں آئی تھی۔ ترقی میں ریزرویشن کی سماجوادی پارٹی حکومت نے مخالفت کی تھی اور ریزرویشن مخالفت گروپ نے یقین دلایا تھاکہ اگر سماجوادی پارٹی کی حکومت وجود میں آئی تو اسے ختم کردیا جائے گا ۔ سماجوادی پارٹی سربراہ ملائم سنگھ یادو نے مایاوتی حکومت کے استعفیٰ دینے کے بعد جب اپنی حکومت بنائی تو سب سے پہلے ترقی میں ریزرویشن کو ختم کردیا۔ ۲۰۰۷میں اکثریت سے بی ایس پی نے حکومت بنائی تو اسے دوبارہ نافذ کردیا۔ جس گروپ کو ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملا ۔وہ گروپ عدالت سے رجوع کیا اور ہائی کورٹ وسپریم کورٹ نے اسے غلط قرار دے دیا۔ عدالت میں اس معاملے کے جانے سے قبل بی ایس پی نے ریزرویشن کی حمایت شدت سے کی تھی لیکن بعد میں خاموشی اختیار کرلی۔ حالانکہ سماجوادی پارٹی اپنے رخ پر قائم رہی اور جب ۲۰۱۲ء میں مکمل اکثریت سے حکومت بنی تو ریزرویشن کے معاملے کو ختم کردیا گیا۔ بی ایس پی نے اس کی مخالفت کی جبکہ بی جے پی کھل کر سامنے آگئی ۔ کانگریس بھی ترقی میں ریزرویشن کے حق میں کھڑی ہوگئی ۔ کانگریس ، بی جے پی اور بی ایس پی کی حمایت سے ترقی میں ریزرویشن کیلئے آئین ترمیمی بل راجیہ سبھا میں منظور کرلیا گیا۔ لیکن یہ اسی وقت نافذ ہوسکتا ہے جب مذکورہ بل لوک سبھا میں بھی پاس ہوجائے۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں اسے مدعابنایا اور لوک سبھا میں منظور کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ بی ایس پی کانگریس کے ساتھ لیکن بی جے پی نے اس مدعا پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔