اسلام آباد ۔ ؛پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے ملحقہ سبزی منڈی میں صبح سویرے اس وقت خوفناک دھماکہ ہوا جب سبزی منڈی میں پھلوں اور سبزیوں کی خرید و فروخت جاری تھی۔ اس دھماکے میں کم از کم 23 افراد جاں بحق اور 31 زخمی ہو گئے ہیں۔ اسلالم آباد کے طبی حکام کے مطابق 9 زخمیوں کی حالت نازک ہے، تاہم ان کی جانیں بچانے کیلیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں یہ خوفناک دھماکہ تقریبا 37 دنوں کے وقفے سے ہوا ہے۔ پچھلے ماہ تین مارچ کی صبح ضلع کچہری اسلام آباد کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد مارگلہ کی پہاڑیوں میں گھرے ہوئے اس شہر کی اہم شخصیات کیلیے حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے مگر عوامی مصروفیت کی اہم جگہ سبزی منڈی کی سکیورٹی کا معاملہ نظر انداز کر دیا گیا۔
اسلام آباد کے قائم مقام انسپیکٹر جنرل پولیس محمد خالد خٹک نے اس بارے ابتدائی طور پر ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر بتایا ہے کہ بظاہر یہ دھماکہ چار سے پانچ کلو وزنی دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے سے ہوا ہے۔ جسے امکانی طور پر پھلوں کی پیٹیوں میں رکھا گیا تھا یا کہیں دبایا گیا تھا۔ آئی جی پولیس نے خود کش دھماکہ ہونے کی فوری تصدیق نہیں کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی تحقیقات کا دائرہ ملنے والے شواہد کی بنیاد پر پھیلا دیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق پیر ودھائی سبزی منڈی میں یہ دھماکہ صبح آٹھ سوا آٹھ بجے کے وقت پر منڈی کے اس حصے میں ہوا جو امرودوں اور خربوزوں کے کاروبار کے حوالے سے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ دھماکے کے وقت آئی جی پولیس کے مطابق 1500 سے 2500 کے درمیان افراد سبزی منڈی میں موجود تھے۔
عینی شاہدوں نے بتایا کہ معمول کے مطابق پھلوں اور سبزیوں کی خرید و فروخت جاری تھی کہ اچانک زور دار دھماکہ ہو گیا۔ دھماکے کے ساتھ ہی تیس سے چالیس میٹر تک کا علاقہ دھویں سے بھر گیا اور پھلوں کی پیٹیوں کے ساتھ ساتھ انسانی لاشیں اور انسانی اعضا 20 سے تیس میٹر کے فاصلے میں بکھر گئے۔ ایک عینی شاہد کے مطاابق دھماکہ ہوا اور اس نے ایک شخص کو پندرہ فٹ تک فضا کی طرف اچھلتے ہوئے دیکھا۔ ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ سولہ سے سترہ لوگ موقع پر جاں بحق ہو گئے تھے۔
سبزی منڈی میں کام کرنے والوں اور دکانداروں کا اس دھماکے کے بعد کہنا تھا کہ سبزی منڈی کی سکیورٹی کا سرے سے کوئی انتظام نہیں ہے۔ حتی کہ دھماکے کے بعد پولیس اور دوسرے سکیورٹی ادارے ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد پہنچے ۔ واضح رہے سبزی منڈی پیر ودھائی سے پنجاب پولیس کا تھانہ تقریبا جڑا ہوا ہے اور اس کا سبزی منڈی سے فاصلہ محض چند قدموں کا ہے۔ اسی طرح بعض سکیورٹی اداروں کے مراکز بھی قریب ہی واقع ہیں۔
واضح رہے دھماکے کے وقت پولیس کا نگرانی کا کوئی انتطام نہ تھا نہ ہی سکیورٹی کیمروں کی تنصیب کی تصیق ہوئی ہے۔ اگرچہ اس منڈی میں ہر روز تقریبا اڑھائی ہزار تک لو کاروبار کیلیے آتے ہیں۔ لیکن یہ انتہائی طور پر عام نوعیت کے پاکستانی ہوتے ہیں۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد ریسکو اداروں اور سکیورٹی اداروں کے دیر سے پہنچنے کے باعث اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں لاشیں اٹھائیں اور زخمیوں کو اسپتالوں میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں کے لوگوں نے سبزی منڈی سے تقریبا چار کلومیٹر کے فاصلے تک دھماکے کا شور سنا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق یہ دھماکہ خیز مواد چار سے پانچ کلوگرام ہو سکتا ہے تاہم پولیس حکام نے اس امر کی ذمہ داری کا تعین کرنے سے گریز کیا ہے کہ یہ بارود سبزی منڈی میں کس ادارے کی کوتاہی کی وجہ سے پہنچنا ممکن ہوا۔ پنجاب پولیس اور اسلام آباد پولیس حکام کا ابتدائی کردار صرف اموات کی تعداد کو کم سے کم رپورٹ کرنے کی حکمت عملی کے طور پر سامنے آیا ہے۔