لکھنؤ(نامہ نگار)دہشت گردانہ واردات کے بعد ہمیشہ چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں کہ آخر ان کا ذمہ دارکون ہے۔خفیہ تنظیمیں اس کیلئے ذمہ دارہیں یا حکومت جس کے پاس اس طرح کی واردات کو روکنے کا حوصلہ نہیں۔سماج میں عدم مساوات اس قدر بڑھتاجارہا ہے جس کا فائدہ موقع پرست لوگ اٹھانے کیلئے دہشت گردی، نکسل ازم اور مائوازم کا نام دیتے ہیں۔ہر واردات کو دہشت گردانہ واردات بتانابھی ٹھیک نہیں ہے۔ پرگیاٹھاکر اور پروہت جیسوں کے دہشت گردانہ واقعات میں ملوث ہونے اوران کے نام سامنے آنے کے بعد اب جانچ میں توجہ صرف اسلئے خاص فرقہ پر نہیں مرکوز ہوناچاہئے اور نہ ہی کسی خاص طبقہ کو شک کی نگاہ سے دیکھاجاناچاہئے ہر معاملے کی غیرجانبدارانہ جانچ ہونی چاہئے اور قصورواروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں ہماری ٹیم نے عوام سے گفتگو کی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ اگر غیرجانبدارانہ جانچ ہوتی ہے اورصرف قصورواروں کو ہی سزائیں دلائی جاتی ہے اور جلد دلائی جاتی ہے تو اس سے قانون اور انصاف پر اعتماد بڑھے گا۔محمد عقیل کا کہنا ہے کہ ہروادات کے بعد خفیہ ایجنسیاں ہوشیارہوتی ہیں یہ بات ہماری خفیہ ایجنسیوں کے سامنے ہمیشہ کھڑارہتا ہے کہ کس طرح اس طرح کی واردات کو روکاجائے۔دہشت گردانہ واقعات ملک کے اندر سازش کے تحت ہونے لگی ہیں۔ اس بارے میں سوچاجاناچاہئے کہ ہر واردات سے کس کو فائدہ ہورہا ہے۔
سنجے سنگھ نے کہا کہ بہار، مغربی بنگال، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اوراڑیسہ میں مائونوازوں کے قدم تیزی سے بڑھے ہیں انہوں نے اتنی تعداد میں فوجیوں کو اپنا نشانہ بنایا ہے اور ان کو شہید کیا ہے جتنے جنگوں میں بھی شہید نہیں ہوئے۔
راجیو کا کہنا ہے کہ ہر طرف جنگ جیسے حالات پیداکئے جارہے ہیں حالانکہ یہ سب صرف سیاسی اورذاتی فائدوں کیلئے ہوتا ہے جو بالکل درست نہیں۔نفرت کی آگ سماج کو مسلسل نقصان پہنچارہی ہے ایسا ہوسکتا ہے کہ براہ راست وہ نقصان نہ دکھائی دے رہا ہو مگر حقیقت میں ملک کا نقصان ہورہا ہے۔محمد شعیب نے کہا کہ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کی بہترین مثال ہندوستان ہے لیکن نفرت کی بیج بونے والے اپنے مفاد کیلئے اس کو تہ تیغ کررہے ہیں۔کبھی اس ملک کو سونے کی چڑیاکہاجاتا تھا لیکن آج نفرت کی آندھی میں اس چڑیاکا وجود خس وخاشاک بن کر اڑگیا۔عبدالحفیظ کہتے ہیں کہ ریاست کی خفیہ ایجنسیاں واردات کے بعد جانچ شروع کردیتی ہیں ریڈ الرٹ جاری ہونے کے کچھ دنوں بعد تک ان کا یہ عمل جاری رہتا ہے مگر دھیرے دھیرے وہ پھر اپنی پرانی روش اختیار کرلیتے ہیں اور خاموش تماشائی بن جاتے ہیں جس سے سلامتی بندوبست کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
عتیق قریشی کا کہنا ہے کہ دہشت گردانہ واردات پر ہرشخص کے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے اوراس بات کا خوف پیداہوجاتا ہے کہ معلوم نہیں کب کیا ہوجائے ان کا کہناہے کہ ہر طرف اس سے ماحول گرم ہوجاتا ہے افواہیں پھیل جاتی ہیں اور لوگ دہشت میں زندگی جینے پر مجبور ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ ان کا گھروں سے نکلنا بھی مصیبت کا سبب بن جاتا ہے۔