ایران کے اسرائیل پر میزائل اور ڈرونز حملے کے تناظر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس رسمی کارروائی کے بعد ملتوی کردیا گیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس 14 اپریل کو اسرائیل کی درخواست پر بلایا گیا جب 13 اپریل کو رات گئے ایران نے اسرائیل پر تقریباً 300 ڈرون اور میزائل داغ کر پہلی بار براہ راست حملے کیے تھے۔
سلامتی کونسل اجلاس کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے تمام ممالک کے اراکین کو خبردار کیا کہ ایران کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت کیخلاف طاقت کا استعمال منع ہے، انہوں نے اسرائیل پر ایران کے حملے کی بھی مذمت کی۔
انتونیو گوتریس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’مشرق وسطیٰ تباہی کے دہانے پر ہے، خطے کو تباہ کن جنگ کے خطرے کا سامنا ہے، وقت آگیا ہے کہ کشیدگی کم اور زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔‘
دوسری جانب امریکا کے نائب مندوب رابرٹ ووڈ نے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل ایران کے جارحانہ اقدامات کی مذمت کرے، فرانس کے مندوب نے ایران اور اس کے اتحادیوں سے خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے سے گریز کرنے کی اپیل کی۔
انہوں نے تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا کہ ’آئندہ چند دنوں میں امریکا دیگر ممالک کے ساتھ مشاورت کے بعد ایران کو اقوام متحدہ میں جوابدہ بنانے کے لیے مزید اقدامات کرے گا‘۔
ایران کے سفیر امیر سعید ایروانی نے خبردار کیا کہ اگر امریکا نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی تو ایران مناسب ردعمل کا حق استعمال کرے گا۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان نے اجلاس میں ایران پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
اقوام متحدہ میں چین کے سفیر ڈائی بنگ نے شام میں ایران کے قونصل خانے پر پچھلے حملے کو ’شیطانی‘ قرار دیا۔
چین نے اسرائیل پر ایران کے حملے پر ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا اور تمام فریقوں سے ’پرسکون اور تحمل‘ کا مطالبہ کیا۔
چین نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ وہاں انسانی تباہی ناقابل قبول ہے۔
اس کےعلاوہ چین کے ساتھ ساتھ روس نے بھی اسرائیل کی حمایت کرنے اور ایرانی قونصل خانے پر حملے کی مذمت نہ کرنے پر امریکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
پسِ منظر: ایران کا اسرائیل پر حملہ
واضح رہے کہ 13 اپریل کی شب ایران نے اسرائیل پر تقریباً 300 ڈرون اور کروز میزائل فائر کیے تھے، جسے آپریشن ٹرو پرامس کا نام دیا گیا ہے، ایرانی پاسدران انقلاب نے اسرائیل پر حملے کی باضابطہ تصدیق کی تھی۔
حملے میں اسرائیلی دفاعی تنصیبات اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق یہ حملہ یکم اپریل کو اسرائیل کے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے جواب میں ہے جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12 افراد شہید ہوگئے تھے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگری نے ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے ایران، عراق اور یمن سے 300 کے قریب ڈرون اور میزائل داغے، جس میں فوجی تنصیاب کو معمولی نقصان پہنچا اور کم از کم 12 افراد زخمی ہوئے، زخمی ہونے والوں میں سے ایک 7 سالہ بچی بھی شامل ہے، جسے ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف چند ایرانی میزائل اسرائیل کی سرزمین میں گرے جس سے فوجی اڈے اور انفراسٹرکچر کو صرف معمولی نقصان پہنچا۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کروز میزائلوں اور یو اے وی (ڈرونز) کو ’اسرائیل کی فضائی حدود تک پہنچنے سے پہلے ہی روک دیا گیا‘۔
اس کے علاوہ ایرانی حملوں کے جواب میں امریکا اور اردن نے اسرائیل کی مدد کرتے ہوئے کئی ایرانی ڈرونز مار گرائے۔
آپریشن ٹرو پرامس کیا ہے؟
ایرانی پاسداران انقلاب نے آپریشن کو ’سچا وعدہ‘(ٹرو پرامس) کا نام دیا تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ ایران کے روحانی پیشوا اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، اسرائیل اور دیگر کے حملوں پر انہیں سزا دینے کے وعدے کو پورا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
پاسداران انقلاب نے کہا کہ آپریشن ’ٹرو پرامس‘ اسرائیلی جرائم کی سزا ہے۔
ایرانی مسلح افواج کے سربراہ محمد بغیری نے کہا کہ آپریشن ’سچا وعدہ‘ رات سے صبح تک کامیابی سے ہمکنار ہوا اور اس نے اپنے تمام مقاصد حاصل کر لیے۔
یہ پہلا موقع تھا کہ ایران نے حزب اللہ اور حماس سمیت اپنے اتحادیوں کے ساتھ برسوں سے جاری ’پراکسی جنگیں‘ چھیڑنے کے بعد اسرائیل پر براہ راست حملہ کیا۔
یکم اپریل کو کیا ہوا تھا؟
واضح رہے کہ یکم اپریل کو اسرائیل کی جانب سے شام میں ایرانی قونصل خانے پر میزائل حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12 افراد شہید ہوگئے تھے۔
اس حملے کے بعد ایرانی فوجی سربراہ جنرل حمد حسین بغیری نے شام میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کا بھرپور جواب دینے کا اعلان کیا تھا۔
ایران نے اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی سے قبل امریکا کو تمام تر معاملے سے دور رہنے کا انتباہ جاری کردیا تھا، جبکہ ممکنہ حملے کے پیش نظر اسرائیل نے مختلف ممالک میں اپنے 28 سفارتخانے بھی بند کردیے تھے۔
حال ہی میں امریکا اور اس کے حلیف ممالک نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ایران یا اس کے اتحادی مستقبل قریب میں اسرائیل پر بڑے میزائل یا ڈرون حملے کرسکتے ہیں، اور ایسا ہونے سے غزہ میں گزشتہ 6 ماہ سے جاری جنگ خطے میں مزید پھیل سکتی ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 33 ہزار 686 فلسطینی شہید اور 76 ہزار 309 زخمی ہو چکے ہیں۔