امریکا میں فالج زدہ چار افراد کی ٹانگوں اور پیروں کو ہلانے کی صلاحیت بحال ہو گئی ہے۔ ماہرین کو یہ کامیابی ایک ایسی ٹیکنالوجی کی بدولت حاصل ہوئی ہے جو چھ ملین تک فالج زدہ امریکیوں کے لیے مددگار بن سکتی ہے۔ یہ چاروں افراد گزشتہ دو برس سے سینے کے نچلے حصے تک فالج کے شکار تھے۔ ان کے لیے چلنا تو دْور ہلنا جْلنا بھی ممکن نہیں تھا اور وہ اْمید کھو چکے تھے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ان کی ریڑھ کی ہڈیوں میں ایک برقی آلہ لگایا گیا ہے جس کے بعد وہ اپنی ٹانگوں اور پیروں کو ہلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ تحقیق جریدے ’برین‘ میں شائع ہوئی ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ کامیابی اگرچہ چند مریضوں کو ملی ہے لیکن اس سے یہ اْمید پیدا ہو گئی ہے کہ اس نئے طریقہ علاج سے مستقبل میں فالج کے شکار تقریباً چھ ملین امریکیوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ان میں ایک اعشاریہ تین ملین ایسے مریض بھی شامل ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈی زخمی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایسے مریضوں کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے جو اْمید کھو چکے ہیں اور انہیں بحالی کے لیے مزید طبی مدد کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔
یہ نتائج زخمی ریڑھ کی ہڈی کے بارے میں ایک اہم مفروضے کو شک و شبے میں ڈال سکتے ہیں، وہ یہ کہ: علاج کے لیے نیورونز کو پھر سے نشوونما دینا یا انہیں نئے سرے سے لگانا، جیسے اسٹیم سیلز۔ یہ طریقے انتہائی مشکل ثابت ہو چکے ہیں جبکہ اسٹیم سیلز کا طریقہ تو متنازعہ بھی رہا
ہے۔
ڈاکٹر روڈرِک پیٹیگریو کہتے ہیں: ’’اس تحقیق کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ زخمی ریڑھ کی ہڈی کے مرض میں مبتلا اس طرح کے مریضوں کو یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ وہ عمر بھر کے لیے فالج کے شکار ہو چکے ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ایسے مریض کسی حد تک ہِرکت کت سکتے ہیں۔ ڈاکٹر پیٹیگریو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بائیومیڈیکل امیجنگ اینڈ بائیو انجینیئرنگ کے ڈائریکٹر ہیں۔ یہ ادارہ نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ کا حصہ ہے اور یہی ادارہ اس تحقیق کے لیے مالی مدد فراہم کرنے والوں میں سے ایک ہے۔علم الاعصاب کی ایک ماہر سوسن ہیرکیما کہتی ہیں: ’’اس تحقیق سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس برقی مدد کے علاوہ بھی زخمی ریڑھ کے ہڈی کے شکار مریضوں کے لیے بحالی کی اْمید ہے۔‘‘
یہ تحقیق فالج زدہ ایک شخص کے مرض پر مبنی ہے جس کے بارے میں ہیرکیما کی ٹیم نے ۲۰۱۱ میں پتہ چلایا تھا۔ یہ شخص ۲۰۰۶ میں ایک ٹریفک حادثے کے نتیجے میں زخمی ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اس کی گردن سے نیچے سارا جسم مفلوج ہو گیا تھا۔