تل ابیب، 23 مئی (یواین آئی) اسرائیل نے بدھ کے روز چند یرغمال بنی خواتین فوجیوں کی فوٹیج جاری کی ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ فوٹیج جاری کرنے کا سوچا تھا مگر بوجوہ فوٹیج جاری کرنے کا فیصلہ روک دیا تھا۔
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز فوٹیج جاری کرنے کا اس وقت دوبارہ فیصلہ کیا ہے جب محض چوبیس گھنٹے قبل اسرائیلی وزارت مواصلات نے غزہ کے اندر کے حالات اور فوجی حملوں سے متعلق فوٹیج بناتے ہوئے امریکی خبر رساں ادارے ‘ اے پی ‘ کو نہ صرف روک کر اس کی فوٹیج قبضے میں لے لی تھی اور اس کے کیمرے و دیگر آلات بھی ضبط کر لیے تھے۔
اسرائیلی ٹی وی چینلوں سے دکھائی جانے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے بندوق برداروں نے پانچ اسرائیلی خواتین فوجیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
فوٹیج سامنے آنے پر مغویوں کے اہل خانہ نے امید ظاہر کی ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کم از کم حماس کے ساتھ جنگ بندی پر اتفاق کرنے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اب کچھ کریں گے۔ نیز یرغمالیوں کے اہل خانہ کے جذبات کا احساس کریں گے اور یرغمالیوں کی فوری رہائی کو یقینی بنائیں گے۔
اسرائیلی حکومت نے اسرائیل اور باقی دنیا کے میڈیا کو تین منٹ کے دورانیے کے کلپ جاری کیے ہیں تاکہ اسرائیل خود کو مظلوم ثابت کر کے میڈیا اور عالمی برادری کی حمایت حاصل کر سکے۔
ایک اسرائیلی خاتون اورلی گلبوا جن کی بیٹی ڈینیلا یرغمال ہے خبر رساں ادارے ‘رائٹرز ‘ کو بتایا۔ وہ وہاں ہر منٹ، ہر سیکنڈ تکلیف میں گذار رہے ہیں۔ انہیں رہا کرانے کے لیے ہر منٹ بہت اہم ہو چکا ہے۔’
اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس ویڈیو فوٹیج کی مدد لے کر آئرلینڈ، ناروے اور سپین کے سفیروں کو متوجہ کیا ہے ۔ ان تینوں یورپی ملکوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ اسرائیل کی وزارت خارجہ نے ان ملکوں سے احتجاج کے لیے ان کے سفیروں کو طلب کیا تھا۔
معلوم ہوا ہے کہ جمعرات کو بھی یہ ویڈیو دکھائی جائے گی۔ اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر نے رپورٹروں سے کہا ‘ براہ کرم دور مت دیکھو۔ اس فوٹیج کو دیکھو اور اپنے لوگوں کو گھر لانے میں حکومت کا ساتھ دو۔’
اس فوٹیج میں نوجوان خواتین کو دکھایا گیا ہے، سبھی پریشان لکتی ہیں، کچھ خون آلود کپڑوں میں ہیں۔ انہیں سات اکتوبر کو زبردستی جیپ میں ڈالا گیا تھا۔
ان میں سے ایک 19 سالہ ناما لیوی ہے ۔ وہ کہہ رہی ہے ‘فلسطین میں میرے دوست ہیں، میں درخواست کرتی ہوں۔’
بندوق برداروں میں سے ایک کو عربی زبان بولتے ہوئے اور چیخ کر بولتے سنا جا سکتا ہے ‘ تم کتے ہو، ہم تم پر قدم رکھیں گے، کتو !’
ایک اور بندوق بردار ایک قیدی سے کہتا ہے: ’تم خوبصورت ہو۔ بتایا گیا ہے کہ یہ فوٹیج بندوق برداروں کے جسموں کے ساتھ بندھے کیمروں سے تیار ہوئی تھی۔ تاہم اسرائیلی حکومت نے اس میں سے مقتول یرغمالوں کی فوٹیج نشر نہیں کی ہے۔ یہ فوٹیج بھی یرغمالی خاندانوں کی اجازت سے نشر کی گئی ہے۔
یرغمالیوں کے خاندانوں کا فورم 124 افراد کے رشتہ داروں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔ اس فورم نے کہا ہے’ اسرائیلی حکومت کو اب ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اسے آج ہی حماس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر واپس جانا چاہیے۔’
دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے حماس کی قیادت کو مسلسل فوجی دباؤ کے ذریعے ہی ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ مگر یرغمالی خاندانوں کو خدشہ ہے کہ ان کے پیارے اس وقت تک زندہ نہیں بچ سکیں گے۔ حکومت براہ کرم، براہ کرم ان کو گھر لانے کے لیے کچھ کرو ،کچھ کرو۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ نے کہا کہ آئرلینڈ، ناروے اور اسپین کے سفیروں کو، جنہیں اس نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی اپنی حکومتوں کی تیاریوں پر احتجاج کے لیے طلب کیا تھا۔