ایران کو ان کے صدر ابراہیم رئیسی کے اچانک انتقال کے بعد ایک بڑے لمحے کا سامنا ہے۔ تہران میں ان کے جنازے میں بہت سے لوگ سوگ منانے اور یہ ظاہر کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے کہ وہ متحد ہیں اور اپنی سیاست کو جاری رکھیں گے۔
بین الاقوامی رہنماؤں کے جنازوں میں شرکت خصوصاً عرب ممالک سے ایران کو مشرق وسطیٰ میں زیادہ اہمیت حاصل کرنے میں مدد ملی۔ جب صدر ابراہیم رئیسی کا انتقال ہوا تو دنیا بھر کے لوگوں نے اس بات پر پوری توجہ دی کہ خطے کا ایک بڑا اور اہم ملک ایران کس طرح کا ردعمل ظاہر کرے گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کو اپنے ملک کے اندر کچھ مسائل کا سامنا تھا اور غزہ کی طویل جنگ کی طرح خطے میں بہت سی لڑائیاں ہو رہی تھیں۔ لوگ اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ تہران میں نیا لیڈر کس طرح اقتدار سنبھالے گا، کیونکہ ان کے خیال میں اس سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ کیا صدر کے جانے کے بعد ایران میں حالات بدل سکتے ہیں۔
ابراہیم رئیسی کے انتقال کے بعد لوگ سوچ رہے ہیں کہ ایران میں انتظامی خلا پیدا ہونے کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا. سپریم لیڈر نے فوری طور پر صدر کی ذمہ داریاں سمبھالنے کو کہا اور اب ایران جون میں نئے صدر کا انتخاب کرنے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔
ایران ماضی میں بھی واقعی مشکل وقت سے گزرا ہے، جیسے کہ 1980 کی دہائی میں ایران عراق جنگ، لیکن وہ اپنے مضبوط نظام کی وجہ سے اسے اچھی طرح سنبھالنے میں کامیاب رہا۔
30 اگست 1981 کو ایران کو ایک بڑا دھچکا لگا جب صدر محمد علی رجائی اور وزیر اعظم محمد جواد بہونار (بعد میں نائب صدربنے) کےدفتر میں ہونے والے بم دھماکے میں مارے گئے۔ اس واقعے نے ایران عراق جنگ کے آغاز میں سیاسی منظر نامے میں طاقت کا خلا پیدا کر دیا۔
اس واقعے کے مہینوں بعد سپریم کورٹ کے آیت اللہ محمد بہشتی اور دیگر اہم سیاسی رہنما ایک دھماکے میں مارے گئے۔ اس طرح کے واقعات ملک کو عدم استحکام کا شکار کر سکتے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
کرائسز مینجمنٹ فنکشن سے نمٹنے کے لیے ایران ہر وقت تیار دیکھائی دیا اور یہی وجہ ہے کہ ایران نے 1989 میں امام خمینی کے انتقال کے بعد بھی کسی بھی بحران کو پیدا ہونے سے روکا۔
موجودہ حالات میں ایران ایک دفعہ پھر سرخرو دیکھائی دے رہا ہے بلکہ صدر رئیسی کے جانے کے بعد ایران پر شک کرنے والوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایران خطے کا ایک اہم ملک ہے اور صدر رئیسی کی ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی کی پالیسی نے ایران کو مزید مضبوط کیا ہے اور اب دیکھنا یہ کہ ایران کے آنے والے صدر کون ہوں گے اور ان کی پالیسیوں کو کس حد تک ساتھ لے کر چلیں گے۔