اقوام متحدہ میں خواتین کے ادارے (یو این ویمن) کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت میں افغان خواتین اور لڑکیوں کو جس جبر کا سامنا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کڑی پابندیوں کے باوجود اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے والی ان خواتین کو دنیا کی مدد درکار ہے۔
ادارے کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے 70 سے زیادہ احکامات نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور زندگیوں پر ایسی رکاوٹیں عائد کی ہیں جن کے باعث ان کے لیے مساوی مواقع کا حصول ممکن نہیں رہا۔
یو این ویمن نے افغانستان میں صنفی مسائل پر جاری کردہ اس پہلی رپورٹ میں طالبان کی موجودہ حکومت کے آغاز سے اب تک خواتین اور لڑکیوں کو درپیش حالات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
رپورٹ میں چار دہائیوں سے ملک میں صنفی مساوات کی صورتحال کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ اس میں یہ جانے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ طالبان حکمرانوں کے احکامات کے باعث صنفی مساوات کے معاملے میں کئی دہائیوں سے حاصل ہونے والی کامیابیاں کیسے ضائع ہو گئی ہیں۔
طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد لڑکیوں کو پرائمری تعلیم کے بعد مزید پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔
تعلیمی پابندی اور بے اختیاری
رپورٹ کے مطابق، صنفی مساوات کی راہ میں عائد کردہ رکاوٹیں افغانستان میں ترقی کے ہر شعبے میں پیش رفت پر اثرانداز ہو رہی ہیں اور مواقع کو محدود کیے دیتی ہیں۔
افغان خواتین کے پاس اپنی زندگیوں پر اثرانداز ہونے والے فیصلوں کا اختیار بھی نہیں رہا۔ طالبان کی قائم مقام حکومت میں کوئی خاتون شامل نہیں اور یو این ویمن کی معلومات کے مطابق ملک میں صرف ایک فیصد خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ ان کا اپنے علاقے میں کوئی اثرورسوخ ہے۔
خواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھے جانے کے تباہ کن اثرات آنے والی نسلوں تک محیط ہوں گے۔ 11 لاکھ لڑکیوں کو سکول اور ایک لاکھ سے زیادہ خواتین کو یونیورسٹی کی تعلیمی سے محروم رکھنے کے نتیجے میں ماؤں کی شرح اموات میں 50 فیصد تک اضافہ ہو جائے گا۔ غیریقینی مستقبل
افغان خواتین کے دیگر خواتین کے ساتھ باقاعدگی سے رابطوں پر بھی پابندی ہے۔ 18 فیصد خواتین نے بتایا کہ وہ متواتر تین ماہ سے اپنے خاندان سے باہر دیگر خواتین سے نہیں مل سکیں۔
سماجی تنہائی نے خواتین اور لڑکیوں کو مایوسی میں دھکیل دیا ہے۔ ایک جائزے میں آٹھ فیصد خواتین نے بتایا کہ وہ کم از کم ایک ایسی خاتون یا لڑکی کو جانتی ہیں جس نے اگست 2021 کے بعد خودکشی کی کوشش کی۔
سماجی رہنما کی حیثیت سے سرگرم ایک 26 سالہ افغان خاتون نے یو این ویمن کو بتایا کہ خواتین ناصرف اپنے گھروں میں بلکہ حکومت اور دیگر جگہوں پر بھی فیصلہ سازی میں اپنا حق چاہتی ہیں۔ انہیں تعلیم درکار ہے اور وہ کام کرنا چاہتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ غیریقینی مستقبل نے افغان خواتین کو مایوس کر دیا ہے، انہیں بہتر زندگی چاہئیے اور وہ نہیں جانتیں کہ اپنے لوگوں کی کب تک مدد کر سکیں گی۔ جبر کے مقابل عزم
رپورٹ کے مطابق، اگرچہ معاشرے کے حوالے سے طالبان کی سوچ میں صنفی بنیاد پر جبر نمایاں ہے تاہم اس کے باجود افغان خواتین اپنے لوگوں کی خدمت کرنے اور اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ طالبان کے برسراقتدار آنے سے تقریباً تین سال بعد آج افغان خواتین کا عزم مضبوط تر ہے حالانکہ ان کے حالات میں متواتر بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔
افغانستان کے لیے ‘یو این ویمن’ کی خصوصی نمائندہ ایلیسن ڈیویڈین نے کہا ہے کہ افغان خواتین نے غیرمعمولی مضبوطی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بے پایاں مسائل کے ہوتے ہوئے یہ خواتین ادارے اور کاروبار چلا رہی ہیں اور لوگوں کو خدمات مہیا کر رہی ہیں۔ دنیا کو انہیں مزید مضبوط بنانے میں مدد دینا ہو گی اور افغانستان کو بین الاقوامی ایجنڈے میں ترجیحی مقام ملنا چاہیے۔ صنفی مساوات کے لیے سفارشات
رپورٹ میں افغان خواتین اور لڑکیوں کی مدد کے لیے تمام متعلقہ فریقین کو عملی اقدامات کے حوالے سے درج ذیل سفارشات پیش کی گئی ہیں: طویل مدتی لچک دار مالیاتی وسائل کی فراہمی:
سول سوسائٹی میں خواتین کے اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے پائیدار اور مطابقت پذیر مالی وسائل مہیا کیے جانے چاہئیں۔
صنفی مساوات کے لیے مالی وسائل کی براہ راست فراہمی: یقینی بنایا جائے کہ افغانستان کو دی جانے والی تمام تر مالی مدد میں سے کم از کم 30 فیصد ایسے اقدامات کے لیے مختص ہو جن سے صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق کو فروغ ملے اور ایسے منصوبوں کو مدد نہ دی جائے جن میں صنفی مساوات کو نظرانداز کیا گیا ہو۔
امتیازی اقدامات کو معمول بنانے سے گریز: ایسے اقدامات کی روک تھام کی جائے جن سے طالبان کی امتیازی پالیسیوں، اصولوں اور اقدار کو نادانستہ طور پر مدد ملے یا ان کے معمول بننے کا خدشہ ہو۔
تمام اقدامات میں انسانی حقوق کی شمولیت: انسانی حقوق اور بالخصوص خواتین کے حقوق کو تمام امدادی سرگرمیوں اور بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل کے اقدامات میں بنیادی پہلو کے طور پر اہمیت دی جائے۔