بشیر کو رہا کرو … ایرانی موسیقار، غزہ کی حمایت کی وجہ سے فرانس کے عتاب کا شکار
غزہ پراسرائیلی حکومت کے حملے کے دوران فلسطین کی حمایت کرنے والوں کے خلاف فرانس کی حکومت کے اقدامات بدستور جاری ہیں اور اس کا تازہ شکار ایک ایرانی موسیقار کو بنایا گيا ہے۔
ایران کے معروف موسیقار اور ثقافتی شخصیت بشیر بی آزار گزشتہ ہفتے سے فرانس کی جیل میں بند ہیں اور ان پر “دہشت گردی کی حمایت” اور ” معاشرے میں فسادات” بھڑکانے کا الزام عائد کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے فلسطین کی حمایت اور غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کی مخالفت کی تھی۔
بشیر بی آزار ایران کے ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے آئی آر آئی بی میں شعبہ موسیقی کے پروڈکشن مینیجر بھی رہ چکے ہيں۔
بشیر بی آزار کو پیرس پولیس نے 4 جون کو بغیر کوئی وجہ بتائے اور بغیر کسی وارنٹ کے طلب کیا تھا اور پولیس اسٹیشن پہنچنے کے فورا انہيں بعد گرفتار کر لیا گيا۔ عینی شاہدوں اور ذرائع کے مطابق گرفتاری کے بعد انہيں غیر قانونی مہاجر کیمپ بھیج دیا گيا جو ان کے گھر سے 100 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔
فرانس کی حکومت یا پولیس نے بشیر بی آزار پر عائد فرد جرم کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہيں کیا ہے اور وضاحت کے مسلسل درخواست کے باوجود، فرانس کی پولیس اور حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اور ایران میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذمہ داروں سمیت مختلف ایرانی عہدیداروں نے بشیر بی آزار کی گرفتاری کو انسانی حقوق کے عالمی اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ایران کے نگران وزیر خارجہ علی باقری، سفارتی چینل سے اس معاملے کی پیروی کر رہے ہیں۔
بشیر بی آزار کون ہیں؟
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جسے پہلے ٹویٹر کہا جاتا تھا، بشیر بی آزار کے پیج پر ایک ویڈيو کلپ ہے جس میں وہ اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف پابندیوں، غزہ میں اسرائيلی اقدامات اور عالمی اداروں کی نا اہلی پر تقریر کرتے نظر آ رہے ہيں۔
انہوں نے ٹویٹ کیا ہے: ” اس سے پہلے صیہونی کبھی بھی اتنے تنہا، نفرت انگيز، شکست خوردہ اور ذلیل نہيں ہوئے تھے”۔
اقوام متحدہ میں ان کی اس تقریر پر جم کر تالیاں بجائی گئی تھیں لیکن اس سے فرانس اور دیگر مغربی ملکوں میں اسرائيل کی حامی لابی آگ بگولا ہو گئی تھی۔
بشیر بی آزار نے فلسطین میں قتل عام کی مذمت کی تھی
بشیر بی آزار سیاسی کارکن نہيں ہیں، بلکہ وہ ایک فن کار اور ثقافتی شخصیت ہیں تاہم وہ اہم عالمی امور پر نظر رکھتے ہيں جن میں غزہ کے حالات بھی شامل ہيں۔
بشیر بی آزار کی پیدائش ایران میں ہوئی اور یہیں وہ پلے بڑھے تاہم موسیقی میں مہارت کی وجہ سے انہيں عالمی شہرت حاصل ہے۔
انہوں نے تہران کی علامہ طباطبائی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور ہندوستان کی عثمانیہ یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی۔
سن 2007 میں بین الاقوامی تعلقات میں عثمانیہ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سن 2011 میں انہوں نے لندن کی کنگسٹن یونیورسٹی کے شعبہ فلم سازی میں پی ایچ ڈی کے لئے داخلہ لیا۔
انہوں نے 20 برسوں پر محیط اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اکثر غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کے ساتھ کام کیا۔
وہ نیو ہورائزن انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کلچر کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے اور اسی طرح انہوں نے لندن میں قائم اسلامک اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کا عہدہ بھی سنبھالا۔
انہوں نے کئی برسوں تک ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے IRIB کے موسیقی کے شعبے میں پروڈکشن مینیجر کے طور پر بھی کام کیا۔
ایران میں فن و ثقافت و سینما کے حلقے میں انہيں بڑی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور وہ سوشل میڈیا پر کافی سرگرم ہیں جہاں دسیوں ہزار لوگ انہیں فالو کرتے ہيں۔
ٹویٹر پر سن 2009 سے ان کا جو اکاؤنٹ چلا آ رہا تھا اسے بغیر وجہ بتائے بند کر دیا گیا جس کی وجہ سے انہوں نے دوسرا اکاؤنٹ بنایا تھا۔
3 سال پہلے بشیر بی آزار اپنی اہلیہ کے ساتھ پی ایچ ڈی کے لئے فرانس چلے گئے۔
فرانس پولیس مظاہرین کے خلاف تشدد کے لئے کافی بدنام ہے
فرانس میں بشیر بی آزار یونیورسٹی میں تدریس بھی کرتے ہيں اور ان کے احباب ، اہل خانہ اور ایرانی حکام کے مطابق وہ فرانس میں قانونی طور پر مقیم ہیں۔
ان کے دو بچے ہيں، ایک اسکول جاتا ہے جبکہ دوسرا بچہ ابھی نرسری میں ہے اور گزشتہ 3 برس کے دوران وہ بغیر کسی مسئلے کے ایران آتے جاتے رہے ہيں۔
فرانس میں قیام کے دوران انہوں نے پروڈکشن کا کام بھی کیا اور جب پیرس میں ایران مخالف عناصر نے ایرانی سفارت خانہ پر حملہ کیا تو انہوں نے وہیں سے اس کی رپورٹ دی۔
گزشتہ اکتوبر میں غزہ کی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی بشیر بی آزار نے جنگ کے خاتمے کے لئے کمپین شروع کی جس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ فرانس کی حکومت بھی اس جنگ میں شریک ہے۔
بشیر بی آزار پر فرانس کے الزامات
فرانسیسی حکام نے بشیر بی آزار کی گرفتاری کے بارے میں میڈیا اور ان کے گھر والوں کے سامنے کسی بھی قسم کی وضاحت دینے سے انکار کیا ہے تاہم ان کے احباب کے توسط سے بعد میں ان پر عائد فرد جرم کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوئی ہیں۔
فرانس کی وزارت داخلہ نے بشیر بی آزار پر مبینہ ایرانی پروپیگنڈہ کرنے اور امریکہ و صیہونی دشمنی بھڑکانے کا الزام عائد کیا ہے جو فرانس کی وزارت داخلہ کی نظر میں دینی و سیاسی مداخلت ہے۔
اسی طرح ان پر ایرانی مخالفین اور یہودی و صیہونی اہداف کے خلاف آپریشن میں کردار کے ذریعے مشرق وسطی کے تنازعہ میں شرکت کا الزام ہے جو فرانس کی امن و سلامتی اور اس کے عالمی تعلقات کے لئے خطرناک ہے۔
ان پر ایک اور الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے حماس اور حزب اللہ کے حامی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنی پوسٹ کے ذریعے نفرت پھیلائی ہے، فرانس کی شہرت کو نقصان پہنچایا ہے اور مخاصمانہ رویہ اختیار کیا ہے۔