اس بار شدید گرمی کے باعث سعودی عرب کے مقدس شہر مکہ میں حج کرنے والے 1300 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی ہزاروں لوگ بیمار ہیں اور ان کا علاج چل رہا ہے۔ مرنے والوں کے اہل خانہ بہت غمزدہ ہیں، لیکن ان کو اس بات کا اطمینان ہے کے مرنے والوں کو مکہ میں دفنایا گیا ہے۔
گرمی کی شدت سے مرنے والے عازمین میں سے ایک ایسا خاندان ہے جس نے اپنے خاندان کے فرد کی موت پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ دراصل ان مرنے والوں میں انڈونیشیا کا نگاتیجو وونگسو بھی شامل ہے، وہ بھی گرمی سے مکہ میں جان کی بازی ہار گئے۔
ان کی بیٹی کا بیان سامنے آیا ہے، جس کا کہنا ہے کہ 86 سالہ وونگسو کی موت پر اہل خانہ بہت خوش ہیں۔ انڈونیشیا دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہے۔ مکہ مکرمہ میں گرمی سے جان کی بازی ہارنے والوں میں انڈونیشیا کے 125 شہری بھی شامل ہیں۔
سعودی عرب کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس بار 18 لاکھ افراد حج کی سعادت حاصل کرنے آئے تھے جن میں سے 1300 سے زائد افراد انتقال کر گئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چلچلاتی گرمی زیادہ تر لوگوں کی موت کی وجہ ہے۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا کے شہری وونگسو کی بیٹی ہیرو ج جمرتیہ کا کہنا ہے کہ ان کے والد 17 جون کو مکہ میں ظہر کی نماز کا انتظار کر رہے تھے کہ ان کی موت ہو گئی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے والد حج پر جانے کے لیے بہت پرجوش تھے۔ وہ فوراً مکہ جانا چاہتا تھا۔ وہ حج کے دوران بھی صحت مند تھے۔
لیکن 17 جون کو وہ مکہ کے جنوب مشرق میں منیٰ میں اپنے خیمے میں مردہ پائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ وونگسو کی موت کے پیچھے خاندان کی خوشی کی وجہ یہی ہے۔ ان کی بیٹی جمرتیہ کہتی ہیں کہ ہمیں خوشی ہے کہ ان کی تدفین مکہ میں ہوئی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جب وہ حج پر جائیں گی تو اپنے والد کی قبر پر ضرور جائیں گی۔
عازمین حج نے سی این این کو بتایا کہ سعودی عرب میں عازمین کو شدید گرمی کے اثرات سے بچانے کے لیے مناسب انتظامات نہیں تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ حج کے دوران لوگ اچانک بیہوش ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے خیمے واپس آتے ہوئے انہوں نے کئی حاجیوں کو مرتے دیکھا۔ ہر چند سو میٹر کے فاصلے پر ایک لاش پڑی تھی جس کو ایک سفید کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔