لکھنئو ؛ مجاہدِ آزادی عبد القیوم رحمانی فائونڈیشن اور آل اندیا سوتنترتا سینانی پریوار ٢٠٠٨ سے مجاہدینِ آزادی مہاتما گاندھی بھگت سنگھ مولانا آزاد بہادر شاہ ظفر جیسے عظیم رہنمائوں کو ان کی قربانیوں کو دلی ،ممبئی لکھنئو اور سدھارتھ نگر میں پروگرام کرتا رہا۔ مذکورہ تنظیم نے جب یہ دیکھا کہ آزادی کی ٧٥ ساللگرہ پر بھی مجاہدین آزادی کو یاد نہیں کیا گیا۔
تو اسی کے پیش ِ نظر لکھنئو میں پہلی بار ساابق اپوزیشن لیڈر رام گوند چودھری ڈاکٹر اے کے سنگھ لکھنئو یونیورسٹی کامریڈ اتُل کمار انجان اور پنکج شریواستو کی موجودگی میں بہادر شاہ ظفر اور ان کی قربانیوں کی یاد میں یوپی پریس کلب لکھنئو میں پروگرام کے ساتھ ساتھ سرکردہ مجاہدین آزادی کی فوٹو نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا۔
بدرِ عالم
پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے سہکاریتا بھون لکھنو میں پروفیسر رام پنیوانی، آنند وردن سنگھ ،شیتل پی سنگھ ،روی کانت ،ستھارتھ کلہنس وغیرہ کی موجوگی میں ٢٠ شخصیتوں کو بہادر شاہ ظفر سمان سے نوازا گیا۔ بہادر شاہ ظفر کی عظیم قربایوں کو جن کی تعریف دامودر ساورکر نے اپنی کتاب میں بہادر شاہ ظفر کی قربانیوں کی زبردست تعریف کی۔
نیتا جی سبھاش چند بوس نے ١٩٤٣ بہادرشاہ ظفر کے برما میں مزار پر حاضری دیتے ہوئے وہیں سے دلی چلو کا نعرہ دیا ۔
مولانا عبد القیوم رحمانی فائونڈیشن کے صدر بدرِ عالم نے کہا کہ مسلم حکمرانوں خاص طور سے مغل حکمرانوں کے خلاف عوام میں بہت ہی منفی تصویر پیش کی گئی جس کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ مغل بادشاہ باہر سے آئے لیکن وہ یہاں آکر آباد ہو گئے ان میں سے کوئی بھی شخص اپنے آبائی ملک واپس نہیں گیا۔
٣٣٠ سالہ دورِ حکومت میں بھارت کی جی ڈی پی دنیا کی کل جی ڈٰ پی کی ایک چوتھائی حصہ پچیس فیصد سے زیادہ بھارت کی تھی اور یہ ملک کو وطن پرست فوجیوں اور محب وطن رہنمائوں نے لال قلع پہونچ کر بہادر شاہ ظفر کو اپنا بادشاہ تسلیم کر کےانکی قیادت میں انگریزوں سے جنگ کی۔ اس عظیم انقلاب میں بہادر شاہ ظفر نے اپنے گھر و خاندان کی قربانی اپنے وطن کی حفاظت کے لئے پیش کی۔