بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ہچکی اس وقت آتی ہے جب کوئی پیارا یاد کر تاہے چنانچہ یاد کر نے والے کانام لینے سے ہچکی رک جاتی ہے ،ان باتوں میںصداقت ہے یاصرف فرضی باتیں ہیں اس کااندازہمیںاس وقت سے ہو سکتا ہے کہ ہچکی آنادر اصل اس سگنل میں خلل واقع ہونے کی ایک علامت ہے جو دماغ غزاکی نالی اور سانس کینالی کے درمیان موجود والیو کو بھیجتا ہے ،جب ہم سانس لیتے ہیں تو ہوا بھی اسی راستے سے گزرتی ہے جس راستے سے
ہم غزایا لعاب نکلتے ہیں یعنی حلق کے ذریعے ہمارے گلے میں ایک عضلاتی در وازہ ہے جہاں نکلنے والی اشیاء جمع ہو تی ہیں ۔دروازے سے آگے ایک نالی ہوتی ہے جو ہوا کی نالی کہلاتی ہے،اس کے ذریعے ہوا بھی جاتی ہے اور نکلنے والی اشیاء بھی ۔اس نالی کا ایک سرا پھیپھڑوں سے جاملتا ہے ،یہ دروازہ اصل میں ایک والیو کی طرح مستقل کام کر تارہتا ہے ،یہیں سے ہوا معدے کے ٹیوب میں پہنچتی ہے جبکہ نکلنے والی اشیاء دوسری طرف نکل جاتی ہیں جب ہم کچھ نگل رہے ہو تے تو اس کا دماغ سے سگنل ملتا ہے جس سے ہوا کی نالی بند ہوجاتی ہے اور غزا کی نالی کھل جاتی ہے ۔دماغ یہ سارا عمل مانیٹر کر تا رہتا ہے اور غزا کی نالیو سانس کی نالی معمول کے مطابق کھلتی اور بند ہو تی رہتی ہے ،بعض اوقات ہم کھانے میں تیزی دکھاتے ہیں اور د ماغ اس تیزی سے سگنل بھیجنے میں الجھن کاشکار ہوجاتاہے چنانچہ غزا سانس کی نالی کی طرف چلی جاتی ہے ،گلے میں کچھ پھنستا ہوا محسوس ہو تاہے اور گلے سے ہک ہک جیسی آوازیں آنے لگی ہیں جسے ہچکی کہتے ہیں ،ہچکی ایک ایسا عمل ہے جو مسلسل ہونے کی صورت میں پریشانی اور بے چینی کاباعث بن جاتی ہے ،ہچکی سے نجات کے لئے ضروری ہے کہ دماغ سے جسم کو نیا ، صاف اور واضح سگنل ملے۔