ممبئی، 23 جولائی (یو این آئی) بالی ووڈ فلم انڈسٹری میں منوج کمار کا نام ایسے عظیم فنکاروں کی فہرست میں شامل ہے جنہوں نے بے مثال اداکارانہ صلاحیتوں سے ناظرین کے دلوں میں اپنا ایک مخصوص مقام بنایا ہے۔
منوج کمار کی پیدائش 24 جولائی 1937 کو پاکستان کے ایبٹ آباد شہر میں ہوئی تھی۔ ان کا اصل نام ہر ی کرشن گوسوامی ہے۔ انہوں نے نہ صرف فلم سازی بلکہ ہدایت کاری،اسٹوری رائٹر اور مکالمہ نگاری سے ناظرین کے دلوں میں اپنی ایک خاص شناخت قائم کی۔
منوج کمار نے تقریبا 50 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔
سال 1957سے 1962تک منو ج کمار فلمی صنعت اپنا مقام بنانے کے لئے جدوجہد کرتے رہے اور آخر کار ان کی جدوجہد رنگ لائی اور فلم ’’فیشن‘‘ سے انھوں نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا۔اس کے بعد انہیں جو بھی کردار ملا اسے وہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے گئے۔
لیکن ان کی کچھ فلمیں ایسی بھی ہیں ،جس میں وہ بحیثیت اداکار، ہدایت کار، پروڈیوسر، اسکرپٹ رائٹر نظر آئے ۔ ان کی متعدد فلموں کی فہرست ایسی ہے جس نے منوج کمار کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ ان فلمو ں میں اپکار،شور،روٹی کپڑااور مکان ،سنتوش ،پورب پچھم ،کل یگ اوررامائن ،کرانتی، جئے ہند،پینٹر بابو اورکلرک وغیرہ شامل ہیں۔
منوج کمار کی فنکاری کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنی فلموں کی کہانیاں خود اردو میں قلم بند کرتے ہیں اس کے علاوہ وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ان کے والد پنڈت ہربنس لال گوسوامی اردو فارسی کے ایک نامور شاعر تھے۔ان کے کلام کا جلوہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب وہ صرف پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔
اگر ان کے ماضی کی طرف ناظر ڈالیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہوگا کہ وہ کسی ہیرو کے نہ تو بیٹے تھے اور نہ ہی کسی ہدایت کار کے رشتہ دار ۔ فلم انڈسٹری کا قلعہ فتح کرنا ان کے لیے تقریباً تقریباً ناممکن تھا۔ پہاڑ جیسی ہمت رکھنے والے ان کے والدین نے انہیں تعلیم دے کر قابل بنایا۔ تعلیم سے فراغت پانے کے بعد وہ ممبئی آگئے۔
یہاں آکر مسلسل دوڑ دھوپ میں لگے رہے اس کے بعد 1957 میں انہیں فلم ’فیشن‘ میں اداکاری کا موقع ملا مگر اس فلم میں انہیں ایک ضعیف العمر شخص کا کردار دیا گیا تھا۔
دوسال تک جدو جہد میں چھوٹے موٹے رول کرنے اور ایک آدھ نچلے درجے کی فلمیں کرنے کے بعد ان کو فلمی صنعت میں قدم رکھنے کی جگہ مل گئی۔مگر تاحال کامیابی ان سے کوسوں دور تھی۔ سال 1961 میں ان کی یکے بعد دیگرے تین فلمیں ’ریشمی رومال” ، ’کانچ کی گڑیا‘ اور ’سہاگ سندور ‘ ریلیز ہوئیں۔ ان فلموں میں ان کی چاکلیٹی اداکاری پُرکشش رہی مگر کمزور اسکرین پلے کے باعث ان فلموں کو کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔
ملک کی تقسیم کے بعد منوج کمار کا خاندان راجستھان کے ہنومان گڑھ ضلع میں بس گیا تھا۔ نہایت دشوار گزار وقت کا سامنا کرتے ہوئے گرتے پڑتے، بے سروسامانی کی حالت میں یہاں پہنچے؛ نہ گھر، نہ ٹھکانہ اور نہ ہی کوئی دوست۔ انہوں نے ایک مہاجر کیمپ میں قیام کیا۔ ان کی معصوم بہن، جو ا‘ن کا کھلونا بھی تھا، غذائی قلت اور غیر صحت مند ماحول کے باعث بیمار پڑگئی، ہسپتال پہنچے تو حالات بگڑے ہوئے تھے، ڈاکٹر کم مریض زیادہ، مسائل بے شمار تھے، ایسے میں مہاجر اور بے شناخت مریض کو کون پوچھتا۔
معصوم بہن کی چیخ و پکار نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ وہ آپے سے باہر ہوگئے۔ ڈنڈا اٹھاکر ڈاکٹر، نرس، پولیس اہلکار الغرض سب پر برس پڑے۔ یہ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری تشدد ثابت ہوا۔ لیکن ان کے والد نے انہیں سمجھایا، کہ تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے اور ہم تشدد کی ہی پیداوار ہیں، اس لیے وعدہ کرو کبھی بھی ہاتھ کا استعمال نہیں کروگے، ہمیشہ محبت اور نرمی کا مظاہرہ کروگے۔
منوج کمار نے وعدہ کرلیا اور ان کی پوری زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ انہوں نے کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی ۔ہسپتال سے جب گھر پہنچے تو ان کی بہن دنیا سے رخصت ہوچکی تھی۔ بہن کا صدمہ نے انہیں توڑ کر رکھ دیا۔ بقول منوج کمار ’’جب میری بہن کی آخری رسوم ادا کی جارہی تھیں تو مجھے ایسا لگا جیسے میری زندگی کا ایک بڑا حصہ ختم ہونے جارہا ہے، میرا وجود مجھے خود پر بوجھ سا لگنے لگا۔
منوج کمار کی طبیعت میں اس حادثہ کے بعد انکساری اور عاجزی آگئی تھی۔ ان کے اپنے رفقا کے ساتھ ہمدردی کا رویہ نہایت نرم ہوگیا۔ جس زمانے میں وہ فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کی کوشش کررہے تھے اسی دوران ان کے دوست اور ساتھی دھرمیندر تقریباً مایوس ہوچکے تھے۔ ایک دن تو وہ بوریا بستر باندھ کر جانے کو تھے لیکن منوج کمار نے انہیں زبردستی روک کر امید برقرار رکھنے کی تلقین کی۔
ان کی یہ تلقین رنگ لائی اور ہندی سینما کو دھرمیندر جیسا سدابہار فن کار نصیب ہوا۔اگر منوج کمار ان کو نہ روکتے تو ’شعلے ، ’میرا گاؤں میرا دیش‘ اور ’آنکھیں جیسی فلمیں پردہ سیمیں کی رونق نہ بن پاتیں۔
ان کی ہمت، ثابت قدمی اور شکست نہ ماننے کا ثمر ان کو 1962 میں ملا جب انہوں نے دو بہترین فلموں کے ساتھ خود کو بطور چاکلیٹی ہیرو کے طور پر منوا یا۔’ہریالی اور راستہ‘ و ’شادی‘ جیسی خوبصورت فلموں کے ذریعے انہوں نے بالآخر وہ مقام پالیا جس کا خواب انہوں نے دلیپ کمار کی ’شبنم‘ دیکھنے کے بعد آنکھوں میں بُننا شروع کیا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک کے بعد ایک کامیاب فلمیں منظر عام پر آئیں۔ ان میں ’نقلی نواب‘ ، ’گھر بساکے دیکھو‘ ، ’وہ کون تھی‘ اور سب سے بڑھ کر عظیم انقلابی بھگت سنگھ کی زندگی پر مبنی فلم ’شہید‘ شامل ہیں۔ شہید میں انہوں نے حقیقی بھگت سنگھ بن کر دکھادیا۔
اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری اس فلم سے کافی متاثر ہوئے۔ انہوں نے ’شہید‘ کی ٹیم سے دہلی میں ملاقات کرکے منوج کمار سے سرکاری نعرے ’جے جوان، جے کسان‘ پر مبنی فلم بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ منوج کمار نے ان کی اس خواہش کو چیلنج کے طور پر قبول کرلیا۔
بس پھر کیا تھا ، ممبئی پہنچتے پہنچتے ان کے ذہن میں فلم کا خاکہ بن چکا تھا۔ اس خاکے کو فلم کا روپ دینے میں انہیں مزید دو سال لگے۔ ان دوسالوں میں ’ہمالیہ کی گود میں‘ ، ’دوبدن‘ اور ’پتھر کے صنم‘ جیسی سدا بہار فلموں کے ذریعے وہ فلم بینوں کے دل و دماغ میں مقام بنا چکے تھے۔
جے جوان جے کسان ، فلم نے ہندی سینما کو ایک نیا رنگ دیا، ایک نئی راہ دکھائی۔اس کے بعدان کی معروف فلم اپکار نے خوبصورت ہدایت کاری، اداکاری، نغموں اور اسکرین پلے کے سبب ہندی سینما میں ایک مخصوص مقام بنایا جو بالی ووڈ کی تاحال پچاس بہترین فلموں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔
فلم‘‘ اپکار” نے ایک نئے منوج کمار کو یعنی ’بھارت کمار‘ کو جنم دیا ۔اس فلم میں منوج کمار کا نام بھارت کمار تھا اور اس کے بعد انہوں نے جتنی بھی فلمیں بنائیں ان میں انہوں نے اپنا نام ’بھارت کمار‘ ہی رکھا جو بعد ازاں ان کی شناخت بن گیا۔
اس کے بعد انہوں نے جتنی بھی فلموں کی ہدایت کاری کی ان میں حب الوطنی کا رنگ چھایا رہا ۔ ان میں ’پورب پچھم‘ ، ’روٹی کپڑا اور مکان‘ ، ’کرانتی‘ ، ’دیش واسی‘ اور ’کلرک‘ وغیرہ شامل ہیں۔ صرف فلم ’شور‘ میں انہوں نے کچھ الگ کر دکھایا جس کے باعث فلم ہٹ ثابت ہوئی۔
ہدایت کاری، پروڈکشن اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے گوکہ وہ چار بہترین فلموں سے آگے نہ بڑھ سکے، البتہ اداکاری کے شعبے میں انہوں نے اپنے اس مقام کو برقرار رکھا جو ’ہریالی اور راستہ‘ سے انہیں حاصل ہوا تھا۔
انہوں نے بعض فلموں پر گہری چھاپ چھوڑی۔ دلیپ کمار اور وحیدہ رحمان کے ساتھ ٹرائنگل رومانٹک اور ٹریجڈی ڈرامہ ’آدمی‘ ، وحیدہ رحمن، راجکمار اور بلراج ساہنی کے ساتھ ’نیل کمل‘ ، راج کپور، راجندر کمار اور دھرمیندر پر مشتمل کلاسک ’میرا نام جوکر‘ جیسی فلموں کو بجا طور پر شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان فلموں میں انہوں نے سینئر ترین اداکاروں بالخصوص اپنے گرو دلیپ کمار اور لیجنڈ راج کپور کے سامنے جم کر اداکاری کے جوہر دکھائے ۔
آج منوج کمار فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوکر ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ فلمی صنعت نے ان کی لازوال خدمات کا اعتراف کر کے انہیں ہندی فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے اعزاز ’’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” سے نوازا، جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔