گزشتہ دنوں بنگلادیش میں جاری رہنے والے حکومت مخالف مظاہروں کے نتیجے میں عوامی لیگ کی وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور حسینہ واجد ملک چھوڑ کر بھارت فرار ہو گئیں۔
اسی تناظر میں شیخ حسینہ واجد کے بیٹے صجیب واجد کی جانب سے اپنی والدہ کے وطن واپس لوٹنے کے حوالے سے مختلف بیانات دیے جارہے ہیں تاہم اب انہوں نے اپنی والدہ اور بنگلادیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد کے بھارت فرار ہونے سے قبل دیے گئے استعفیٰ سے متعلق نیا دعویٰ کردیا ہے۔
برطانوی خبر ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں حسینہ واجد کے بیٹے صجیب واجد نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت روانگی سے قبل ان کی والدہ نے بطور وزیراعظم باضابطہ طور پر استعفیٰ نہیں دیا تھا۔
واشنگٹن میں دیے گئے اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ میری والدہ نے آفیشلی استعفیٰ دیا اور نہ ہی انہیں اس کا وقت مل سکا تھا۔
صجیب واجد کا کہنا تھا کہ انکی والدہ نے استعفیٰ دینے کا ارادہ کیا تھا اور وہ اس سلسلے میں اپنا بیان ریکارڈ کروانا چاہ رہی تھیں لیکن پھر مظاہرین نے وزیراعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی شروع کردی جس کے بعد انہیں بیان ریکارڈ کرنے یا استعفیٰ دینا تو دور اپنا سامان اٹھانے کی مہلت بھی نہیں ملی۔
انہوں نے کہا کہ صدر نے عسکری حکام اور حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت کے بعد اسمبلی تحلیل کردی اور وزیراعظم کے باضابطہ استعفیٰ کے بغیر ہی نگران حکومت قائم کردی ہے، آئینی اعتبار سے حسینہ واجد اب بھی بنگلادیش کی وزیراعظم ہیں اور صدر کے اقدامات کو قانونی طور پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
صجیب واجد کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت اگلے تین ماہ تک انتخابات کا اعلان ہو جانا چاہیے، حسینہ واجد کی پارٹی عوامی لیگ آئندہ انتخابات میں حصہ لے گی، انہیں یقین ہے کہ وہ اقتدار میں آجائیں گے لیکن اگر نہیں بھی آئے تو وہ حزب اختلاف میں بیٹھیں گے۔
انہوں نے بنگلادیش کی سابق وزیراعظم اور حزب مخالف کی رہنما خالدہ ضیا کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ خالدہ ضیا کا بیان خوش آئندہ ہے کہ جو ہو گیا سو ہوگیا، اب ہمیں انتقام کی سیاست نہیں کرنی۔
صجیب واجد نے بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کو بھول کر ہمیں انتقام کی سیاست کو مسترد کرنا ہوگا اور مل کر کام کرنا ہوگا پھر چاہے وہ اتحادی حکومت کی صورت میں ہو یا انفرادی سیاست ہو، ہمیں پرامن جمہوریت اور آزاد اور شفاف انتخابات پر یقین ہے۔