واشنگٹن، 24 اگست (یو این آئی) امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ کے لیے جنگ بندی سمجھوتے کو حتمی شکل دینے اور حماس کے زیر حراست اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قطر اور مصر کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعہ کی شام دو علاحدہ ٹیلی فون رابطوں میں مصری صدر عبد الفتاح السیسی اور قطر کے امیر تمیم بن حمد کے ساتھ بات چیت کی۔ بات چیت میں غزہ کی پٹی میں جنگ ختم کرانے کے لیے ثالثیوں کی مشترکہ کوششوں پر توجہ مرکوز رہی۔
یہ بات مصری ایوان صدر کے ترجمان احمد فہمی اور قطری شاہی ایوان کی جانب سے جاری بیانات میں بتائی گئی۔
فیس بک پر جاری بیان میں احمد فہمی نے بتایا کہ مذکورہ ٹیلی فون رابطہ ان دو وساطت کار ملکوں کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے جاری کوششوں کے سلسلے میں تھا۔ بات چیت میں قاہرہ میں منعقد مذاکرات کے حالیہ دور کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ دونوں سربراہان نے اس بات کی اہمیت کو باور کرایا کہ معاہدے تک پہنچنے کے لیے متعلقہ فریقوں کی جانب سے رکاوٹیں دور کی جائیں اور لچک کا مظاہرہ بھی کیا جائے۔
اس موقع پر السیسی نے باور کرایا کہ جنگ بندی کے فوری معاہدے تک پہنچنا اس نازک وقت میں بڑی اہمیت کا حامل ہے، خواہ یہ غزہ کی پٹی میں انسانی مصائب پر روک لگانے کے لیے ہو یا پھر خطے میں تنازع کا دائرہ وسیع ہونے سے بچانے کے لیے ہو۔
ادھر دوحہ میں قطر کے امیر کے ایوان کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ جمعے کی شام جو بائیڈن کی جانب سے امیر تمیم کو ہونے والی ٹیلی فون کال میں غزہ کی پٹی میں صورت حال کی پیش رفت اور وہاں جنگ ختم کرانے کے لیے وساطت کاروں کی مشترکہ کوششوں پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان تزویراتی تعلقات اور انھیں مضوبط بنانے کے طریقوں کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تازہ پیش رفت بھی زیر بحث آئی۔
ایک طرف مصر، قطر اور امریکا کی جانب سے غزہ کی جنگ ختم کرانے اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے معاہدے کی پے در پے تجاویز پیش کی جا رہیں تو دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو معاہدہ قبول کرنے کے لیے شرائط میں مسلسل اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ یہ روش سمجھوتے تک پہنچنے میں رکاوٹ ڈالے گی۔
نیتن یاہو کی شرائط میں غزہ اور مصر کے بیچ سرحد پر فلادلفیا راہ داری اور غزہ کی پٹی میں رفح کی سرحدی گزر گاہ پر اسرائیلی کنٹرول اور (نتساریم گزر گاہ کے ذریعے واپس آنے والوں کی تلاشی لے کر) فلسطینی گروپوں کے جنگجوؤں کو غزہ پٹی کے شمال میں واپس آنے سے روکنا ہے۔ ادھر حماس تنظیم کا اسرار ہے کہ کسی بھی معاہدے تک پہنچنے کے لیے غزہ پٹی سے اسرائیل کا مکمل انخلا اور وہاں جنگ کی مکمل بندش عمل میں لائی جائے۔
اسرائیل نے امریکی سپورٹ کے ساتھ 7 اکتوبر 2023 سے غزہ کی پٹی پر ایک تباہ کن جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ اس میں اب تک 1.33 لاکھ فلسطینی جاں بحق اور زخمی ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں جب کہ وسیع تباہی کے بیچ 10 ہزار افراد لا پتا ہیں۔
تل ابیب نے غزہ کی جنگ فوری طور پر روکنے سے متعلق سلامتی کونسل کی قرار داد کو نظر انداز کرتے ہوئے جنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں اسرائیلی حکومت بین الاقوامی عدالت انصاف کے ان احکامات کو بھی خاطر میں نہیں لائی جن میں کہا گیا کہ غزہ میں اجتماعی نسل کشی روکنے اور آفت زدہ انسانی صورت حال بہتر بنانے کے لیے تل ابیب حکومت اقدامات کرے۔