ہر سال 21 ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’عالمی یوم الزائمر‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا بنیادی مقصد الزائمر یا ڈیمینشیا کے مرض سے وابستہ مسائل، عوامل و بچاؤ کے حوالے سے آگاہی اجاگر کرنا ہے۔
اس سال عالمی یوم الزائمر کا مرکزی خیال ’یادداشت کے مرض ڈیمینشیا یا الزائمر کے حوالے سے بچاؤ اور عوامل پر عمل کرنے کا وقت‘ قرار دیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر منائی جانے والی ’آگاہی کی مہم‘ دراصل الزائمر کے مرض کے حوالے سے امتیازی سلوک کے ازالے اور اس کے مریضوں کے حوالے سے رویوں میں تبدیلی کے گرد گھومتی ہے۔
یہ مہم ’ڈیمینشیا‘ سے ’دوستانہ معاشرہ‘ تیار کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے مثبت اقدامات کی حمایت کے ساتھ ساتھ ان پر عملی تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں۔
الزائمر انٹرنیشنل کی جاری کردہ بین الاقوامی الزائمر رپورٹ کے مطابق ڈیمینشیا مریضوں سے متعلق رویوں کے حوالے سے 62 فیصد شعبہ طب سے وابستہ افراد اس مرض کو ڈھلتی عمر یعنی بڑھاپے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ 35 فیصد دیکھ بھال کرنے والوں (جن کی اکثریت اہل خانہ پر ہی مشتمل ہوا کرتی ہے) کو ڈیمینشیا کی تشخیص کا بتانا ہی نہیں چاہتے، چھپا کر رکھا جاتا ہے۔
اس رپورٹ کے عالمی اعداد و شمار اپنی جگہ مگر پاکستان کے تناظر میں اس مرض کے مریضوں کی حقیقی معنوں میں تعداد معلوم ہی نہیں جبکہ دوسری جانب ہمارے خاندانی نظام میں ایسے مریض معالج سے بھی رجوع نہیں کرتے اور اسے فقط ڈھلتی عمر کا مرض سمجھتے ہیں۔
دراصل یہ عالمی دن ڈیمینشیا یعنی بھولنے کی بیماری کے عوامل، وجوہات اور اس کے ہونے کے خطرات کے ساتھ ساتھ بچاؤ کے اقدامات پر بھی توجہ مرکوز کرتا ہے تاکہ اس بیماری کے وقوع پذیر ہونے اور اس کی دیگر اقسام کے ہونے میں تاخیر یا ممکنہ طور پر روکنے کے لیے مناسب وقت پر کردار ادا کیا جاسکے۔
عالمی ادارہ صحت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 6 کروڑ 50 لاکھ انسانوں کو ڈیمنشیا کا مرض لاحق ہے۔ ان مریضوں میں سے 60 فیصد کا تعلق کم یا درمیانے درجے کی آمدن رکھنے والے ممالک سے ہے۔ ہر سال کم و بیش اس تعداد میں ایک کروڑ نئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ جس تناسب سے ڈیمینشیا یعنی بھولنے کی بیماری بڑھ رہی ہے، اندازہ ہے کہ 2050ء میں یہ تعداد 13 کروڑ 90 لاکھ سے تجاوز کرسکتی ہے۔
پاکستان میں اس مرض کے اعداد و شمار پر بات کریں تو تشخیص شدہ مریضوں کی محتاط ترین تعداد تقریباً 10 لاکھ سے زائد ہے جبکہ پاکستان میں 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد (عالمی ادارہ صحت کے مطابق) 4.84 فیصد کے قریب ہے۔
دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستانی معاشرے کے خاندانی نظام کے تناظر میں بالخصوص بھولنے کی بیماری کی تشخیص بروقت نہیں ہو پاتی، یہی وجہ ہے کہ بروقت علاج شروع نہیں ہوپاتا۔ نتیجتاً مریض اور اہل خانہ کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
کیا الزائمر محض بڑھتی عمر کی وجہ سے ہوتا ہے؟
الزائمر، جو ڈیمیشیا (بھولنے کی بیماری) ہی کی سب سے زیادہ عام قسم ہے، ایسا دماغی عارضہ ہے جس میں دماغ کے یادداشت کے نظام کے خلیے بتدریج ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً دماغ کا وہ حصہ جو یادداشت کے نظام کا ذمہ دار ہوتا ہے، وہ متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کے باعث اس انسان کی شخصیت، رویّہ، مزاج اور بحیثیتِ مجموعی حافظہ متاثر ہو جاتے ہیں۔ ڈیمینشیا کی کم و بیش 100 سے زائد اقسام ہیں جن میں سب سے زیادہ عام قسم الزائمر ہے۔
ڈیمیشیا ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ بہرحال بڑھتی عمر (Aging) ہی ہے لیکن ڈیمینشیا فقط بڑھتی عمر کی وجہ سے نہیں ہوتا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’اور تمہی میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جن کو بدترین عمر (یعنی انتہائی بڑھاپے) تک لوٹا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی کچھ نہیں جانتے‘ (سورۃ الحج)۔
درج بالا کیفیت کو حرف عام میں نسیان کا مرض اور طب کی دنیا میں ڈیمینشیا کہتے ہیں۔ یہ ایک لمبا چلنے والا دماغی مرض ہے۔ دماغ میں 20 سے زائد مختلف جین (genes) ہیں جو کسی شخص میں ڈیمینشیا کے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جین APOE وہ پہلی جین ہے جس کے بارے میں تحقیق سے پتا چلا کہ وہ الزائمرکی بیماری کی وجہ ہے۔
خواتین میں مردوں کے مقابلے الزائمر کی بیماری ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خواتین کی اوسط عمر مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔
مجموعی طور پر الزائمر کے مرض میں مبتلا ہونے کی حتمی وجہ تاحال تحقیق کے مراحل سے ہی گزر رہی ہیں۔ تاہم اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق ان میں مختلف جین جس میں APOE جین سب سے نمایاں ہے، کے علاوہ وٹامن بی 12 کی کمی، ذیابیطس، بلندفشار خون، فالج، نیند کی مسلسل کمی، موٹاپا، نیند آور، بے چینی و سردرد کی ادویات کا بے دریغ استعمال اور صحت مند دماغی و جسمانی سرگرمیوں کے فقدان جیسی وجوہات بھی بھولنے کی بیماری کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تساہل پسندی، دیر سے سونا و جاگنا، تمباکو نوشی اور غیر متوازی غذا کا استعمال بھی حافظے کی کمزوری کا سبب بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جو افراد مستقل بنیادوں پر ذہنی و جسمانی معمولات کو اپنا کر رکھتے ہیں، ان میں بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں یہ امر بتانا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ سالوں کے مختلف تحقیقاتی شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی بھی ڈیمینشیا کے خطرے کو بڑھا دیتی ہے۔
ہمارے پالیسی ساز اداروں کو ماحول کی آلودگی اور اس کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ نیز سر کی چوٹ کے نتیجے میں یادداشت کا مسئلہ لاحق ہونے کا خطرہ خاصا زیادہ ہوجاتا ہے۔ معاشرے میں بڑے پیمانے پر اس ضمن میں آگاہی و شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے متوجہ کرنا بھی بےحد ضروری ہے تاکہ حادثات کے نتیجے میں لگنے والی سر کی چوٹوں کو کم سے کم کیا جاسکے۔
الزائمر کی تشخیص کیسے ممکن ہے؟
الزائمر کی علامات کو جاننے اور اس کے مطابق علاج و تشخیص کے لیے کوئی ایک ٹیسٹ نہیں ہے تاہم ماہر امراضِ دماغ و اعصاب (نیورولوجسٹ) اس کی تشخیص میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے جو کہ مکمل معائنے اور دماغ وخون کے متعلقہ ٹیسٹ کرنے کے بعد اس بیماری کی تشخیص کرتا ہے۔
الزائمر کی ابتدائی علامات میں یادداشت میں کمی، روزمرہ کے کاموں کو ادا کرنے میں مشکلات، وقت اور جگہ یاد نہ رہنا، قوت فیصلہ میں کمی، بات کرنے میں دشواری، روزمرہ کے کاموں میں عدم دلچسپی، چیزیں رکھ کر بھول جانا، رویے میں تبدیلی، باریک بینی پیچیدہ سوچ میں مشکلات کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر شخصیت کا تبدیل ہو جانا شامل ہیں۔
الزائمر کی ابتدائی علامات
موجودہ یادداشت میں کمی: ابتدائی علامات میں عام طور مریض تھوڑی ہی دیر پہلے کی باتوں کو بھول جاتا ہے۔
روز مرہ کے کاموں میں مشکلات: مریضوں کو معمولات زندگی سرانجام دینے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ یہ وہ روز مرہ کے کام ہوتے ہیں جنہیں انسان پوری زندگی میں آسانی اور صحیح طریقے سے سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔
بات کرنے میں دشواری: یادداشت کی بیماری میں مریض کے لیے آسان الفاظ اور روزمرہ کے استعمال ہونے والے الفاظ کی ادائیگی دشوار ہوجاتی ہے۔
وقت اور جگہ کا یاد نہ رہنا: یادداشت کی بیماری میں مبتلا ہونے والے انسان کو اپنی روزانہ کی آمدو رفت کے راستوں کی پہچان میں دشواری ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ کہاں، کس جگہ اور کس وقت پر موجود ہیں۔
قوت فیصلہ میں کمی: مریضوں کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہوجاتی ہے، اکثر لین دین کے معاملات میں غلطیاں کرتے ہیں۔
باریک بینی یا پیچیدہ سوچ کا فقدان: یادداشت کے مرض میں مبتلا انسان میں سوچنے اور سمجھنے کے معاملات کی باریک بینی کے حوالے سے کمی واقع ہوجاتی ہے۔
مندرجہ ذیل عوامل کی وجہ سے انسان میں ڈیمینشیا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
جسمانی غیر فعالیت
غیر متوازن غذا
تمباکو و شراب نوشی
نشہ آور اشیا کا استعمال
ذیابیطس و بلڈ پریشر کا مسلسل قابو میں نہ رہنا
موٹاپا
سماجی تنہائی
یاسیت و مایوسی
ذہنی صحت میں کمزوری
ناخواندگی
الزائمر سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟
یاد رہے کہ ابتدائی علامات میں انسان کے معمولات زندگی، مزاج اور رویے میں ابتدا میں چھوٹی معمولی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی جائے تو ان میں نہ صرف اضافہ ہوجاتا ہے بلکہ یہ الزائمر کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ اس لیے ابتدائی علامات ہونے کی صورت میں معالج سے رجوع کرنا نہایت ضروری اور مفید ہے۔ اگر الزائمر سے مکمل چھٹکارا ناممکن بھی ہو توبروقت تشخیص و علاج اس مرض کی پیچیدگیوں اور مرض کو تیزی سے بڑھنے سے روکنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اس مرض کی تشخیص کے لیے ضروری لیبارٹری ٹیسٹ و دماغ کا اسکین (ایم آر آئی) اور مریض و اہل خانہ سے مکمل معلومات لینا و طبی (نیورولوجی) معائنہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ مرض کی تشخیص کے بعد ادویات کا استعمال بالعموم روز مرہ معمولات میں آسانی کا باعث بن جاتا ہے۔ تاہم ایسے تمام مریض اپنے معالج کی ہدایات کے عین مطابق ادویات کا استعمال کریں۔
تمام تشخیص شدہ مریضوں میں جہاں ادویات کا استعمال اہم ہے وہیں سماجی سرگرمیاں بھی مریضوں کے لیے نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس بھولنے کی بیماری میں چونکہ مریض میں یاسیت و مایوسی اور اضطراب بڑھ جاتا ہے لہٰذا نفسیاتی و ذہنی مسائل کی بروقت تشخیص کرکے ادویات اور طرز زندگی میں تبدیلی لانا مریض کے لیے نہایت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
بھولنے کی بیماری میں مبتلا مریضوں کے لیے جہاں علاج اور طرز زندگی کی تبدیلی ایک اہم جز ہے وہیں ان مریضوں کے اہل خانہ بالخصوص وہ افراد جو باقاعدہ مریض کی تیمارداری و نگہداشت پر مامور ہیں، انہیں حکمت، صبر و تدبرکے ساتھ تمام معاملات کو لےکر چلنا ضروری ہے۔
ڈیمینشیا کے مریض، مرض کی علامات بڑھنے کی صورت میں ایسی ایسی حرکات کردیتے ہیں جن کو اہل خانہ نہ صرف حیرانی کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ وہ ناقابلِ یقین صورتحال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ایسے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے اہل خانہ کا خصوصی کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ان مریضوں کو ادویات کے ساتھ ساتھ تازہ آب و ہوا ور ماحول کی تبدیلی سے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔
مرض سے محفوظ رہنے کے لیے متوازی غذا بالخصوص سبزیوں اور پھلوں کا استعمال، جسمانی ورزش و چہل قدمی، ہر قسم کی تمباکو نوشی و نشے سے مکمل دور رہنے کے ساتھ ساتھ سماجی میل ملاپ، دماغی نشوونما کے لیے مطالعہ بہت خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی مثبت سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا نہایت مفید ہے جن سے ذہن متحرک رہے۔
ڈیمینشیا ایک طویل مدتی بیماری ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریضوں کی نگہداشت جہاں اہل خانہ و عزیز رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے۔ وہیں معاشرے کے اہل خیر افراد، نجی تنظیموں اور حکومتی اداروں کو اس ضمن میں اپنا کردار عملی طور پر ادا کرنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنے مریضوں کا نہ صرف بہتر طور پر خیال رکھ سکیں بلکہ اس مرض کے متعلق معاشرے میں آگاہی پیدا کریں تاکہ ہم اپنے بزرگوں کی بہتر خدمت کے ساتھ ساتھ ان کے بڑھاپے کے معیار زندگی بہتر بنانے میں بحیثیت معاشرہ درست کردار ادا کریں۔ یہی صحت مند معاشرے کے قیام کا تقاضا اور ہمارے دین کا حکم ہے۔