ممبئی ( ندیم صدیقی ) : اردو کے ممتاز، دین و ملت کے درد مند صحافی، دانش ور (72 سالہ) سید محمد عالِم نقوی گزشتہ شب طویل علالت کے بعد لوک نائیک جے پرکاش نارائن ہسپتال دہلی میں انتقال کر گئے۔
سید محمد عالِم نقوی جن کا آبائی وطن نصیر آباد (ضلع رائے بریلی، یوپی) تھا مگر ان کی پیدائش (بقول برادرِ خرد طاہر نقوی) 10 اکتوبر 1952 کو لکھنؤ میں ہوئی، (ہر چند کہ اُن کی تاریخِ پیدائش ہمارے پاس 26 فروری 1949 درج ہے۔) لکھنؤ کے سینٹ زیوئیرس اور شیعہ کالج میں انہوں نے تعلیم حاصل کی اور پھر سر سید کی درس گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے، جہاں سے انہوں نے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کیا۔ سائیکلو جی اُن کا خاص مضمون تھا، انہیں علی گڑھ کی مشہور عالم مسلم یونیورسٹی ہی سے گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔
اپنے دور کے ممتاز اور سینئر صحافی جمیل مہدی کی معیت میں انہوں نے لکھنؤ سے شائع ہونے والے جریدے ’عزائم‘ سے اپنی صحافتی زندگی شروع کی۔ کسی زمانے میں جمیل مہدی بھی ممبئی میں اخباری دنیا کا ایک ممتاز نام تھے۔ سید محمد عالم نقوی جمیل مہدی کو صحافت کے میدان میں اپنا اوّلین استاد قرار دیتے تھے۔
عالِم نقوی کے ساتھ ہم نے کوئی دو دہے سے زائد مدت کام کیا، ان کے تعلق سے یہ بات اکثر ذہن میں آتی تھی کہ انہیں تو استاد ہونا چاہیے تھا، تو باتوں میں باتوں میں پتہ چلا کہ نفسیات کا یہ طالب علم کلکتے کے ’اردو جونیئر ہائی اسکول‘ کا صدر مدرس رہ چکا ہے۔
عالم نقوی ایسوسی ایشن آف انڈین انجینئرنگ انڈسٹریز (دہلی میں) میں بطور ایگزیکٹیو کام کر چکے تھے، اپنے دور کے مشہور سرکاری جریدے ’روزگار سماچار‘ میں انہوں نے نہ صرف پروف ریڈنگ کی بلکہ ترجمہ نگاری بھی کی۔
عالِم نقوی اپنے دور کے مشہور ترین روزنامہ ’قومی آواز‘ (دہلی) سے وابستہ ہوئے اور اگر ہمارا حافظہ خطا نہیں ہوتا تو 1987-1988 میں روزنامہ انقلاب (ممبئی) میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر ان کا تقرر ہوا مگر وہ کام نیوز ایڈیٹنگ کا کرتے تھے اور اس نازک کام میں مرحوم مہارت رکھتے تھے، ہر ہفتے ’انقلاب‘ کے سنڈے میگزین میں ان کا مضمون بہ اہتمام شائع ہوتا تھا، جس کا موضوع اکثر ملت اور حالیہ مسائل ہی ہوتے تھے جس میں ان کی درد مندی صاف محسوس ہوتی تھی، کچھ لوگ ان کے جذباتی ہونے سے شاکی بھی رہتے تھے مگر ان کا قلم ہمیشہ وہی لکھتا رہا جو ان کے دل میں ہوتا تھا۔
اطلاعات کے مطابق ان کے والد انہیں ایک مجتہد دیکھنا چاہتے تھے مگر عالِم نقوی نے صحافت میں اجتہاد کیا اور نیک نام ہوئے، ان کے مزاج میں دینی رجحان کوٹ کوٹ کر جیسے بھرا ہوا تھا، وہ اپنے اداریے اور مضامین میں اکثر و بیشتر قرآن سے استنباط کیا کرتے تھے، کئی اخباری ساتھی ان کے اس عمل پر ’نگاہ‘ رکھتے تھے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ہم لازم سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری برادری میں ’لکھاڑ‘ صحافی کہے جاتے تھے مگر کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ وہ لکھنے سے زیادہ پڑھتے تھے اور ان کے مطالعے کے موضوعات صرف سیاسیات نہیں بلکہ دین و ادب بھی ہوتے تھے، اچھے شعر پر جس طرح ان کے تاثرات چہرے سے عیاں ہوتے تھے، ویسی کیفیت ہم نے شعرا کے ہاں بھی کم دیکھی ہے۔
روزنامہ انقلاب میں ہمارے رفیق کار شاعر ارتضیٰ نشاط کے اس شعر پر:
کفر سے ایمان کی جانب سفر کیسا لگا!
کیا ہوا، قالین سے کیسے دری تک آ گئے؟
مت مقالے ایسے لوگوں پر لکھو جو بد نصیب
فن کی راہوں میں چلے سوداگری تک آ گئے
ہم نے انہیں تادیر اُف اُف کرتے نم دیدہ دیکھا ہے۔ شعر سے اس طرح متاثر ہونے والے ہمارے ہاں آج عنقا ہیں۔
عالِم نقوی کی ممبئی میں سب سے پہلی کتاب گجرات فسادات کے بعد ’لہو چراغ‘ کے نام سے منظر عام پر آئی اور اس وقت ان کی دو کتابیں اور ہمارے حافظے میں ہیں، جن میں ایک ’امید‘ اور دوسری ’عذابِ دانش‘ ہے۔
روزنامہ انقلاب کی ملازمت کے لیے لوگ متمنی اور کوشاں رہتے ہیں مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے ’انقلاب‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر جیسے عہدے سے از خود استعفیٰ دے دیا اور پھر کچھ مدت بعد وہ برادرم سعید حمید کی ایما پر لکھنؤ سے روزنامہ ’اردو ٹائمز‘ (ممبئی) کے ایڈیٹر کے منصب کے لیے مدعو کیے گئے اور یہاں بھی انہوں نے خاصی طویل مدت کام کیا، پھر ’اردو ٹائمز‘ سے نکل کر وہ لکھنؤ کے روزنامہ ’اودھ نامہ‘ کے گروپ ایڈیٹر کے طور پر منتخب ہوئے۔
عالِم نقوی کی صحافت کا دورانیہ دو چار دن کی بات نہیں، یہ ایک طویل زمانہ ہے۔ انہوں نے اپنی عمر کے آخری ایام گزارنے کے لیے علی گڑھ کو منتخب کیا اور وہیں مستقل رہائش اختیار کی، ادھر ایک مدت سے وہ علیل تھے، لکھنؤ، دہلی کے ہسپتالوں میں ان کا ہر طرح کا ٹیسٹ لیا گیا مگر ان کی صحت روز بروز گرتی گئی، آخری دنوں میں وہ شدید ذہنی اور جسمانی ضعف کا شکار ہو گئے تھے، بالاخر گزشتہ شب کچھ دیر کے لیے علی گڑھ سے لا کر دہلی کے مذکورہ ہسپتال میں انہیں علاج و معالجے کے لیے داخل کیا گیا، جہاں انہوں نے گزشتہ رات دیر گئے آخری سانس لی۔
کل بعد نمازِ جمعہ لکھنؤ کے مشہور غفران مآب امام باڑے کے قبرستان میں اُن کے جسدِ خاکی کو سپردِ لحد کیا گیا۔ اس موقع پر شہر کے ممتاز افراد و اشخاص نے انہیں مٹی دی۔ عالِم نقوی کے پسماندگان میں دو بیٹے اور دو بیٹیوں کے ساتھ بیوہ نشاط نقوی ہیں۔