نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آج ’بلڈوزر کارروائیوں‘ کے حوالے سے ایک تاریخی فیصلہ سنایا، جس میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ ریاستی حکومتیں کسی بھی فرد کی جائیداد کو محض الزام کی بنیاد پر تباہ نہیں کر سکتیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ یہ عمل آئین کے تحت افراد کے حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس کا مقصد قانون کی حکمرانی کی ضمانت دینا ہے۔
عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک کوئی شخص مجرم ثابت نہ ہو جائے، اس کی جائیداد کو صرف الزام کی بنیاد پر تباہ کرنا غیر قانونی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومتوں اور ان کے اہلکاروں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی فرد کو مجرم قرار دے کر اس کی جائیداد تباہ کریں۔ یہ فیصلہ آئین کے اصولوں کے تحت افراد کی حفاظت کے حق میں ہے، جو انہیں ریاستی طاقت کے من مانے استعمال سے بچاتا ہے۔
عدالت نے اس بات کی وضاحت کی کہ قانون کی حکمرانی میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ شہریوں کی جائیداد بغیر کسی معقول وجہ کے نہیں چھینی جا سکتی۔ اس فیصلے میں حکومتوں اور ان کے افسران کو متنبہ کیا گیا کہ وہ قانون کے دائرہ کار سے باہر جا کر کسی کو سزا دینے کے طور پر جائیداد کے انہدام کا عمل نہ کریں۔
یہ فیصلہ ان متعدد کیسز کے تناظر میں آیا ہے جہاں ریاستوں نے سیاسی یا سماجی وجوہات کی بناء پر افراد کی جائیدادیں تباہ کی ہیں اور یہ کارروائیاں اکثر اقلیتی گروپوں اور مخصوص برادریوں کے خلاف ہوئیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس عمل کو ’مذہبی امتیاز‘ اور ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیا تھا۔
عدالت نے مزید کہا کہ جب بھی کسی جائیداد کو منہدم کرنے کا حکم دیا جائے، اس کے لیے عدلیہ کی نگرانی ضروری ہے تاکہ کسی بھی قسم کی غیر قانونی کارروائی سے بچا جا سکے۔ اس نے یہ بھی تجویز کیا کہ ایک آن لائن پورٹل قائم کیا جائے تاکہ متاثرہ افراد کو آگاہ کیا جا سکے اور کوئی بھی انہدام کا عمل شفاف طریقے سے مکمل ہو۔