لکھنؤ: اترپردیش کے سنبھل ضلع میں جامع مسجد کے حوالے سے حالیہ عدالتی حکم اور ہندو فریق کے دعووں کے بعد جمعہ کی نماز کے پیش نظر سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
پولیس نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی بدامنی برداشت نہیں کی جائے گی۔ پولیس اور انتظامیہ نے علاقے میں فلیگ مارچ کیا اور عوام سے امن قائم رکھنے کی اپیل کی ہے۔
سنبھل کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کرشن کمار وِشنوئی نے کہا کہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس کی جانب سے لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے پیدل مارچ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جو لوگ امن کو خراب کرنے کی کوشش کریں گے ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘‘
پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی مساجد میں ہی نماز ادا کریں اور کسی بھی طرح کے مشتبہ مواد یا افواہوں کو پھیلانے سے گریز کریں۔ مزید برآں، سوشل میڈیا پر سخت نگرانی کی جا رہی ہے اور دو افراد کو مشتبہ پوسٹس کی وجہ سے پابند کیا گیا ہے۔ ڈرون کے ذریعے بھی علاقے کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راجندر پیسیا نے بتایا کہ جمعہ کی نماز کے موقع پر علاقے میں دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے تاکہ پانچ سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد ہو۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو امن و امان کے حوالے سے آگاہ کیا جا رہا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔
یہ اقدامات اس وقت کیے گئے ہیں جب سنبھل کی عدالت نے جامع مسجد کا سروے کرنے کا حکم جاری کیا۔ وکیل وشنو شنکر جین نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مسجد دراصل ہری ہر مندر کے مقام پر بنائی گئی ہے، جو ہندوؤں کی مذہبی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخی شواہد اور آثار واضح طور پر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ مقام ایک ہندو مندر کا تھا۔
عدالت نے اس معاملے میں ایڈوکیٹ کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ مسجد کی ویڈیوگرافی اور فوٹوگرافی کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ جگہ آثار قدیمہ کے محکمے کے زیر تحفظ ہے اور اس پر کسی بھی قسم کا قبضہ غیر قانونی ہے۔ افسران نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ افواہوں پر یقین نہ کریں اور امن قائم رکھیں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔