ایک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ دن میں 10 گھنٹے یا اس سے زیادہ بیٹھے رہنے کا رویہ دل کا دورہ پڑنے کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے خواہ آپ باقاعدگی سے ورزش ہی کیوں نہ کرتے ہوں۔
ناکافی ورزش دل کی بیماری کا ایک معروف سبب ہے اور صحت کے اصول یہ تجویز کرتے ہیں کہ اس خطرے کو کم کرنے کے لیے ہفتے میں تقریباً 150 منٹ معتدل سے سخت جسمانی سرگرمی ضروری ہے۔
تاہم امریکی ریاست میساچوسٹس جنرل ہسپتال کے سائنس دانوں کے مطابق ورزش دن بھر کی مجموعی سرگرمی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہوتی ہے اور موجودہ ہدایات بیٹھے رہنے کے رویے کے بارے میں کوئی خاص مشورہ نہیں دیتیں۔
یہ نئی تحقیق جو جریدے جے اے سی سی میں شائع ہوئی، میں یو کے بائیو بینک میں درج تقریباً 90 ہزار افراد کی صحت سے متعلق معلومات کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیق کے شرکا نے کلائی پر پہنے جانے والے آلے کے ذریعے اپنی حرکات و سکنات کا ڈیٹا فراہم کیا جو سات دنوں تک ریکارڈ کیا گیا تھا۔شرکا کی اوسط عمر 62 سال تھی جن میں تقریباً 56 فیصد خواتین شامل تھیں، اور روزانہ کے بیٹھنے کے اوسط وقت کا اندازہ 9.4 گھنٹے لگایا گیا۔ تحقیق میں اس دورانیے کا جائزہ لیا گیا جب بیٹھے رہنے کی وجہ سے دل کی بیماری کا خطرہ سب سے زیادہ ظاہر ہوا۔
سائنس دانوں نے بیٹھے رہنے کے وقت اور جسمانی سرگرمی کے امتزاج کا جائزہ لیا کہ یہ عوامل جاں لیوا امراض مثال کے طور پر دل کی دھڑکن میں بے قاعدگی (ایٹریل فیبریلیشن، اے ایف)، دل میں خون کے بہاؤ میں رکاوٹ (مایوکارڈیل انفارکشن، ایم آئی) اور حرکت قلب بند ہونے (ہارٹ فیلیور، ایچ ایف) کے خطرے کا سبب کیسے بنے۔
آٹھ سال تک شرکا پر تحقیق کے بعد سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ تقریباً 3600 افراد کو اے ایف، 1850 سے زیادہ کو ایچ ایف اور 1600 سے زیادہ کو ایم آئی ہوا۔ مزید یہ کہ سائنس دانوں کے مطابق ان میں سے تقریباً 900 افراد دل کی بیماریوں کے باعث فوت ہو گئے۔
تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بیٹھے رہنے کے وقت کے اثرات نتائج کے مطابق مختلف تھے۔ مثال کے طور پر جن افراد کو اے ایف اور ایم آئی ہوا، ان میں خطرہ وقت کے ساتھ مسلسل بڑھتا رہا، بغیر کسی بڑی تبدیلی کے۔تاہم، جن افراد کو حرکت قلب بند ہونے یا دل کی بیماری کا سامنا کرنا پڑا ان میں خطرہ تب تک معمولی رہا جب تک بیٹھے رہنے کا وقت 10.5 گھنٹے یومیہ سے تجاوز نہ کر گیا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس مقام پر خطرہ نمایاں طور پر بڑھ گیا جس سے بیٹھے رہنے کی عادت پر ایک ’حد‘ کا اثر ظاہر ہوا۔
مزید برآں وہ شرکا جو ہفتے میں کم از کم 150 منٹ کی معتدل سے شدید جسمانی سرگرمی کے مشورے پر عمل کر رہے تھے، ان میں بیٹھے رہنے کے وقت کا اے ایف اور ایم آئی کے خطرے پر اثر کافی حد تک کم دیکھا گیا۔ تاہم محققین نے خبردار کیا ان افراد میں دل کی بیماریوں کی وجہ سے اموات اور حرکت قلب بند ہونے کے ’زیادہ خطرے‘ پر اثر نمایاں رہا۔مطالعہ کے شریک مصنف شان خورشید نے کہا: ’مستقبل کے رہنما اصولوں اور عوامی صحت کے لیے کوششوں کو بیٹھے رہنے کا وقت کم کرنے کی اہمیت پر زور دینا چاہیے۔‘
’روزانہ 10.6 گھنٹے سے زیادہ وقت نہ بیٹھنا دل کی بہتر صحت کے لیے حقیقی اور کم سے کم ہدف ہو سکتا ہے۔‘ایک لحاظ تحقیق کے محدود ہونے کو اجاگر کرتے ہوئے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کلائی پر پہنے گئے آلات، جن کی مدد سے شرکا کا ڈیٹا جمع کیا گیا،
بیٹھنے کی حالت کی درست طور پر شناخت کے معاملے میں خامی رکھتے ہیں اور بیٹھے رہنے کے وقت کی غلط درجہ بند کر سکتے ہیں۔تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ مطالعہ پھر بھی بیٹھے رہنے کے رویے اور دل کی صحت کے درمیان مضبوط تعلق کے بڑھتے ہوئے شواہد میں اہم اضافہ کرتا ہے۔
براؤن یونیورسٹی کے شعبہ خاندانی طب کے ڈائریکٹر چارلز ایٹن نے جریدے میں ایک منسلک اداریے میں لکھا کہ ’یہ نتائج واضح طور پر تجویز کرتے ہیں کہ ہمیں بہتر صحت کے لیے لوگوں کو زیادہ متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔‘