ہیومن رائٹس واچ نے غزہ میں شہریوں کو پانی تک رسائی سے محروم رکھنے پر اسرائیل پر نسل کشی کے اقدامات کا الزام لگایا دیا۔
ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینی شہریوں کو مناسب پانی کی رسائی سے جان بوجھ کر محروم رکھ کر “نسل کشی کے اقدامات” کیے جا رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اسرائیل کے اقدامات کے تحت پانی اور صفائی کے بنیادی ڈھانچے کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی اموات ہوئیں، یہ عمل انسانیت کے خلاف نسل کشی کے جرم کے مترادف ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کی گئی 179 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیلی حکام نے غزہ کی پٹی میں زندہ رہنے کیلئے درکار مناسب پانی تک فلسطینیوں کی رسائی میں جان بوجھ کر رکاوٹ ڈالی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے بنیادی ڈھانچے کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا، جن میں پانی کی صفائی کے پلانٹس کو چلانے والے شمسی پینل، ایک ذخیرہ، اور پرزوں کا گودام شامل ہے جبکہ جنریٹرز کیلئے ایندھن کی سپلائی بھی روکی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل نے بجلی کی فراہمی کاٹ دی، مرمت کرنے والے کارکنوں پر حملے کیے، اور مرمت کیلئے درکار سامان کے غزہ میں داخلے کو روکا۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تیرانا حسن نے کہا کہ یہ محض غفلت نہیں ہے بلکہ یہ محرومی کی ایک سوچے سمجھے منصوبے کی پالیسی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد پیاس اور بیماری سے ہلاک ہو چکے ہیں، جو انسانیت کے خلاف جرم اور نسل کشی کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ غزہ کے درجنوں فلسطینیوں کے انٹرویوز، بشمول پانی کے حکام، صفائی کے ماہرین اور صحت کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ اکتوبر 2023 سے ستمبر 2024 تک سیٹلائٹ تصاویر اور ڈیٹا پر مبنی ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ میں ایک بڑی فوجی کارروائی کا آغاز کیا جس میں اب تک 45,129 افراد شہید ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہیں، شہید اور زخمی ہونے والوں میں نصف سے زائد تعداد صرف بچوں اور خواتین پر مشتمل ہے۔