سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج کے ذریعہ کچھ برسوں کے لیے موجودہ یا سابق ججوں کے بچوں کو ہائی کورٹ کے جج طور پر تقرر کرنے کے لیے منتخب نہیں کرنے کی تجویز دی گئی۔
اس کے بعد سپریم کورٹ کالجیم میں شامل ایک سینئر رکن نے تجویز پیش کی کہ ججوں کے بچوں کو پوری طرح سے نہیں روکنا چاہیے لیکن ان کے لیے معیار کو اعلیٰ کرنا ہوگا۔ جج کی اس تجویز کی وکیلوں کے درمیان خوب چرچا ہو رہی ہے۔ وکیل اس کی تعریف کر رہے ہیں۔
وکیلوں کی طویل عرصے سے شکایت تھی کہ عام طور پر ہائی کورٹ کا جج بننے کے لیے موجودہ یا سابق ججوں کے اہل خانہ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کالجیم میں شامل اس رکن کا کہنا ہے کہ ایسے امیدواروں کے انتخاب کو پوری طرح سے روکنا امتیازی سلوک ہوگا۔ ایسا اس لیے کہ عدالتی تقرریاں صرف اہلیت اور مناسبیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
اس رکن کے ذریعہ یہ بھی جواز دیا گیا کہ یہ قدم عدالتی نظام کو ایسی صلاحیت سے محروم کر سکتی، جن کی ضرورت وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ حالانکہ انہوں نے پہلے جج کے ذریعہ مجوزہ مقاصد سے اتفاق ظاہر کیا۔ انہوں نے اس دلیل کے لیے وکیلوں کے درمیان عدم اطمینان کا احساس ہونے کا جواز دیا۔
انہوں نے یہ بھی مانا کہ ایسے انتخاب کئی مرتبہ قابل ہوتے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا نے ذرائع کے حوالے سے یہ بات کہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وکیلوں کا عدم اطمینان بدھ کو ‘فُل کورٹ ریفرنس’ معاملہ کے دوران سامنے آیا جب سپریم کورٹ کے تین سابق ججوں (جسٹس کلدیپ سنگھ، جسٹس ایم جگن ناتھ راؤ اور جسٹس ایچ ایس بیدی) کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
ان تینوں ججوں کے بیٹوں کو ہائی کورٹ کے جج کے طور پر تقرر کیا گیا تھا۔ انم یں سے ایک نے صرف چھ مہینے میں اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا اور پھر سے سپریم کورٹ مں وکالت شروع کر دی۔