قاہرہ : مصر نے اتوار کے روز اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے امریکی میڈیا کے سامنے غزہ کے بارے میں کیے گئے حالیہ تبصرے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں دانستہ طور پر “غلط معلومات” فراہم کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا جس سے مصر کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کی مخالفت ہوتی ہے۔
فاکس نیوز کے ساتھ ہفتہ کو نشر ہونے والے انٹرویو میں مسٹر نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ کو “دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل” قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو “رخصت ہونے کی اجازت نہیں ہے۔”
انہوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے غزہ کی آبادی کو زبردستی بے گھر کرنے اور اردن اور مصر میں منتقل کرنے کی تجویز کی بھی تعریف کی، جبکہ اس تجویز کو عرب ممالک نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
مصری وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نیتن یاہو کے تبصروں سے ان کوششوں کی مخالفت ہوئی ہے جو مصر غزہ میں فلسطینی عوام تک فوری انسانی امداد پہنچانے کے لیے کر رہا ہے، جن میں سے تازہ ترین جنگ بندی کے بعد سے 5000 سے زائد امدادی ٹرک غزہ پہنچائے گئے، اس کے علاوہ زخمی فلسطینیوں کو رفح بارڈر کے ذریعے گزرنے کی سہولت فراہم کی گئی۔
مصر نے اس بات پر زور دیا کہ نیتن یاہو کے دعووں کا مقصد اسرائیل کی طرف سے فلسطینی شہریوں کے خلاف کی جانے والی “انتہائی پامالیوں” اور اسپتالوں، تعلیمی اداروں، بجلی گھروں اور پانی کی سہولیات سمیت اہم فلسطینی تنصیبات کی تباہی سے توجہ ہٹانا ہے۔
مصر نے فلسطینی عوام کو مصر، اردن یا سعودی عرب میں منتقل کرنے سے متعلق کسی بھی تجویز کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔
اس نے 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر دارالحکومت مشرقی یروشلم کے ساتھ اپنی ریاست کے قیام کے فلسطینی عوام کے حق کی حمایت کرنے کے مصری اور عرب موقف پر قائم رہنے کی تصدیق کی۔