واشنگٹن، 30ا کتوبر: ایران کے ساتھ نیوکلیائی تنازعہ کا حل تلاش کرنے کے لئے ایک طرف جہاں جی۔5 اور جرمنی اور آئی اے ای اے کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت نظر آرہی ہے ، وہیں امریکی سنیٹ ایران کے خلاف پابندیوں میں اضافہ کرکے اس کے تیل کے ایکسپورٹ کو نصف کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔
خارجہ امور سے متعلق سنیٹ کی کمیٹی کے سربراہ رابرٹ منینڈیز نے امریکہ، اسرائیل کی عوامی امور سے متعلق کمیٹی (اے آئی پی اے سی) کی کل نیویارک میں منعقد ہ میٹنگ میں بتایا کہ نئی پابندیوں کے پیکیج میں ایک سال کے اندر ایران کا تیل ایکسپورٹ گھٹاکر پانچ لاکھ بیرل روزانہ کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس وقت ایران کو روازنہ تقریباً دس لاکھ بیرل تیل کے ایکسپورٹ کی اجازت ہے۔
اس سال جولائی میں امریکی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے ذریعہ منظور کردہ ایک قرارداد کے مقابلے میں سنیٹ کی اس تجویز کو نرم سمجھا جارہا ہے جس میں ایران کے تیل ایکسپورٹ کو اس سے کیس زیادہ کم کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ سنیٹ کی یہ قرار داد ایوان میں پیش کی جائے گی۔
اعتدال پسند رہنما سمجھے جانے والے حسن روحانی کے ایران کا صدر منتخب ہونے کے بعد سے مغربی ملکوں کے ساتھ نیوکلیائی مذاکرات میں ایک بار پھر پیش نظر آرہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے الگ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین جی ۔5 اور جرمنی کے ساتھ ایران کے مذاکرات اور اس کے گزشتہ اتوار کو ویانا میں آئی اے ای اے کے ساتھ شروع ہوئی بات چیت سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ امریکہ اور اقوام متحدہ ایران کے خلاف عابد کردہ پابندیوں میں کچھ رعایت دے سکتے ہیں۔
خود امریکی صدر بارک اوبامہ نے بھی مسٹر روحانی سے ٹیلیفون سے بات کی تھی جو 1979 کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطہ ہے ۔ لیکن مسٹر مینڈیز نے کہا کہ پابندیوں میں نرمی سے قبل ایران کو اپنے نیوکلیائی پروگرام بند کرنے ہوں گے ۔ انہوں نے اے آئی پی ا ے سی کی میٹنگ میں کہا “پابندیاں نرم کرنے کا یہ وقت نہیں ہے”۔
اگر امریکہ ایران کے خلاف پابندیوں کو مزید سخت کرتا ہے تو اس کا راست اثر ہند، چین ، شمالی کوریا، ترکی اور جاپان پر پڑے گا جو ایران سے سب سے زیادہ خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کا امپورٹ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی بازار میں بھی خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ایران کے تیل ایکسپورٹ کی پابندیوں میں مزید اضافہ کرنے کی امریکی سنیٹ کی تیاری
واشنگٹن، 30ا کتوبر: ایران کے ساتھ نیوکلیائی تنازعہ کا حل تلاش کرنے کے لئے ایک طرف جہاں جی۔5 اور جرمنی اور آئی اے ای اے کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت نظر آرہی ہے ، وہیں امریکی سنیٹ ایران کے خلاف پابندیوں میں اضافہ کرکے اس کے تیل کے ایکسپورٹ کو نصف کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔
خارجہ امور سے متعلق سنیٹ کی کمیٹی کے سربراہ رابرٹ منینڈیز نے امریکہ، اسرائیل کی عوامی امور سے متعلق کمیٹی (اے آئی پی اے سی) کی کل نیویارک میں منعقد ہ میٹنگ میں بتایا کہ نئی پابندیوں کے پیکیج میں ایک سال کے اندر ایران کا تیل ایکسپورٹ گھٹاکر پانچ لاکھ بیرل روزانہ کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس وقت ایران کو روازنہ تقریباً دس لاکھ بیرل تیل کے ایکسپورٹ کی اجازت ہے۔
اس سال جولائی میں امریکی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے ذریعہ منظور کردہ ایک قرارداد کے مقابلے میں سنیٹ کی اس تجویز کو نرم سمجھا جارہا ہے جس میں ایران کے تیل ایکسپورٹ کو اس سے کیس زیادہ کم کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ سنیٹ کی یہ قرار داد ایوان میں پیش کی جائے گی۔
اعتدال پسند رہنما سمجھے جانے والے حسن روحانی کے ایران کا صدر منتخب ہونے کے بعد سے مغربی ملکوں کے ساتھ نیوکلیائی مذاکرات میں ایک بار پھر پیش نظر آرہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے الگ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین جی ۔5 اور جرمنی کے ساتھ ایران کے مذاکرات اور اس کے گزشتہ اتوار کو ویانا میں آئی اے ای اے کے ساتھ شروع ہوئی بات چیت سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ امریکہ اور اقوام متحدہ ایران کے خلاف عابد کردہ پابندیوں میں کچھ رعایت دے سکتے ہیں۔
خود امریکی صدر بارک اوبامہ نے بھی مسٹر روحانی سے ٹیلیفون سے بات کی تھی جو 1979 کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطہ ہے ۔ لیکن مسٹر مینڈیز نے کہا کہ پابندیوں میں نرمی سے قبل ایران کو اپنے نیوکلیائی پروگرام بند کرنے ہوں گے ۔ انہوں نے اے آئی پی ا ے سی کی میٹنگ میں کہا “پابندیاں نرم کرنے کا یہ وقت نہیں ہے”۔
اگر امریکہ ایران کے خلاف پابندیوں کو مزید سخت کرتا ہے تو اس کا راست اثر ہند، چین ، شمالی کوریا، ترکی اور جاپان پر پڑے گا جو ایران سے سب سے زیادہ خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کا امپورٹ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی بازار میں بھی خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔