سال 2020 میں دہلی میں ہونے والے فسادات کے مقدمات میں عدالتوں کی جانب سے پولیس کی تحقیقات پر مسلسل سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ حالیہ عدالتی فیصلوں میں پولیس کی جانچ کو غیر معیاری اور غیر موثر قرار دیا گیا ہے۔ ’بی بی سی ہندی‘ نے اس معاملہ پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، کڑکڑڈومہ کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے اپنے فیصلے میں لکھا، ’’جب تاریخ دہلی فسادات کو دیکھے گی، تو یہ بات ضرور چبھے گی کہ تفتیشی ایجنسی نے جدید سائنسی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے مناسب تحقیقات نہیں کی۔ پولیس کی ناقص تفتیش نے صرف عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
اعداد و شمار کے مطابق دہلی فسادات میں 53 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 40 مسلمان اور 13 ہندو شامل تھے، جبکہ سینکڑوں افراد زخمی اور کروڑوں کی املاک تباہ ہوئی۔ پولیس نے 758 ایف آئی آر درج کیں اور دو ہزار سے زائد گرفتاریاں کیں۔
بی بی سی ہندی نے ان تمام کیسز کی موجودہ حیثیت کا تجزیہ کیا۔ تحقیق کے مطابق، اب تک 80 فیصد سے زیادہ مقدمات میں ملزمان بری یا ڈسچارج ہو چکے ہیں، یعنی عدالت نے چارج شیٹ کو ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر مسترد کر دیا۔ 120 سے زیادہ فیصلوں میں سے صرف 20 مقدمات میں مجرم ثابت ہوئے، جن میں سے بھی 12 کیسوں میں ملزمان نے جرم قبول کر لیا تھا۔
دہلی پولیس سے اس معاملے پر مؤقف لینے کی کوشش کی گئی، تاہم کوئی جواب نہیں ملا۔ ہائی کورٹ میں ایک جواب میں پولیس نے کہا کہ تمام تحقیقات منصفانہ اور شفاف طریقے سے کی گئی ہیں۔
آر ٹی آئی کے ذریعے موصولہ معلومات کے مطابق 62 قتل کے مقدمات میں سے اب تک صرف ایک کیس میں کسی کو مجرم قرار دیا گیا ہے، جبکہ چار میں ملزمان بری ہو چکے ہیں، 39 مقدمات ابھی بھی عدالت میں زیر سماعت ہیں اور 15 کی تفتیش جاری ہے۔ گزشتہ دسمبر میں عدالت نے 22 سالہ مونش عرف محسن کے قتل کے الزام میں 5 افراد کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔
دہلی فسادات سے جڑے ایک اہم مقدمے میں 18 افراد پر یو اے پی اے کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں، تاہم اس کیس میں ابھی تک مقدمے کی سماعت شروع نہیں ہوئی۔ عدالتوں کے یہ فیصلے پولیس کی تفتیش پر سنگین سوالات کھڑے کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دہلی فسادات کی تحقیقات میں سنگین خامیاں پائی جاتی ہیں۔