لکھنؤ۔(نامہ نگار)۔ اترپردیش میں بی جے پی کے انچارج امت شاہ ریاست میں بی جے پی کی تقدیر لکھتے وقت مسلمانوں کو فراموش کر بیٹھے۔ یہی سبب ہے کہ انتخاب سے لیکر اب تک کسی موڑ پر بھی مسلمانوں کا کردار انہیں نظر نہیں آیا۔ اب تک بی جے پی کے بڑے رہنما مسلمانوں سے بی جے پی کی حمایت حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کے اس رویے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس اور بی ایس پی کے رہنماؤں نے کہا کہ بی جے پی کی نیت مسلمانوں کے سلسلہ میں صاف نہیں ہے۔ اس لئے وہ ان کے درمیان جانے سے کترا رہے ہیں اور بی جے پی کے ترجمان سے لیکر بڑے رہنما تک اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرنے سے بھی کترا رہے ہیں۔ جہاں تک سوال ہے اٹل بہاری کے حلقہ انتخاب لکھنؤکا یہاں پوری ریاست کا سیاسی خاکہ تیار کیا
جاتا ہے اور یہی وہ شہر ہے جس پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اس لئے کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی کے پاس بی جے پی صدر یہاں سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ یہاں پر ۳۳۰۱۸۵۹ ووٹر ہیں جس میں مسلمانوں کی حصہ داری اکیس فیصد ہے۔ راجدھانی میں مسلمان کسی بھی امیدوار کو کامیاب کرانے یا شکست سے دور چار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لئے ہر پارٹی مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان کبھی بھی کسی ایک پارٹی کے ساتھ نہیں رہا ہے۔ اس کے باوجود کسی بھی پارٹی میں مسلم ووٹروں سے دور رہنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ خود اٹل بہاری باجپئی نے ہمیشہ مسلم ووٹروں کو اپنا اہم حصہ تسلیم کیا۔ ان کے ہر انتخابی پروگرام میں مسلم علاقوں کو اہمیت دی گئی۔ اس کے بعد لال جی ٹنڈن نے بھی مسلم آبادیوں میں گھر گھر جاکر ووٹ مانگے لیکن اس مرتبہ بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے نامزدگی داخل کرنے کے بعد سے آج تک کسی بھی مسلم علاقہ میں اپنا کوئی پروگرام نہیں رکھا۔ چندر روز قبل راج ناتھ کی مسلم رہنماؤں سے ملاقات کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اب بی جے پی مسلم علاقوں میں پروگرام کرے گی اور اس میں بڑے رہنما بھی شامل ہوں گے۔
راج ناتھ سنگھ کی بات چھوڑیئے کوئی دوسرا لیڈر بھی مسلم علاقوں میں نہیں گیا۔ لکھنؤ پارلیمانی حلقہ میں راج ناتھ کا چار روزہ انتخابی پروگرام بھی بن چکا ہے جس میں مسلم علاقوں میں کوئی بھی عوامی جلسہ شامل نہیں ہے۔ میئر ڈاکٹر دنیش شرما لکھنؤ کے موجودہ رکن پارلیمنٹ لال جی ٹنڈن ریاستی، جنرل سکریٹری اور راج ناتھ کے بیٹے پنکج سنگھ ، ان کی اہلیہ ساوتری سنگھ سمیت کئی رہنما تقریباً آدھے لکھنؤ کا دورہ کر چکے ہیں لیکن انہیں مسلم علاقوں میں جانے کی فرصت نہیں ملی۔
سنی رہنما مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے بھی کہا کہ یہ معاملہ پارٹی کا ہے اور اسے طے کرنا ہے کہ ان کے بڑے رہنما کہاں جائیں گے۔ رہی بات مسلم علاقوں کی تو اگر کوئی لیڈر آتا ہے تو بھی ٹھیک اور نہیں آتا ہے تو بھی ٹھیک۔ دوسری طرف مسلمانوں کو بی جے پی سے جوڑنے کے کام میں مشغول اقلیتی مورچہ کی ریاستی صدر رومانہ صدیقی سے اس سلسلہ میں بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہ کام میرے سپردکیا گیا ہے اور میں اسے پورا کر رہی ہوں جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اقلیتی مورچہ کو حاشیہ پر رکھا گیا ہے اور اسے سیاست میںکوئی اہم ذمہ داری نہیں دی گئی ہے جبکہ نامزدگی کے دوران راج ناتھ سنگھ سب سے پہلے اقلیتی مورچہ کے دفتر جاکر پورا تعاون کرنے کی یقین دہانی حاصل کر رہے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اقلیتی مورچہ کی انتخابی تشہیر کیلئے ایک گاڑی تک مہیا نہیں کرائی گئی۔ دوسری طرف کانگریسی امیدوار ریتا بہوگناجوشی اور سماج وادی پارٹی امیدوار ابھیشیک مشرا اور بی ایس پی کے نکل دوبے اپنے پورے لشکر کے ساتھ مسلم علاقوں میں تشہیر میں مصروف ہیں۔ شیعہ رہنما مولانا کلب جواد کہتے ہیں کہ یہ پارٹی کے رہنما سمجھیں کہ اگر انہیں کسی کا ووٹ چاہئے ہے تو انہیں ان سے ملنا چاہئے۔