محققین کا کہنا ہے کہ بچپن میں ڈراؤنے خواب آنے والی عمر میں سنجیدہ دماغی مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔ برطانیہ میں محققین نے خبردار کیا ہے کہ بچپن میں باقاعدگی سے ڈراؤنے خواب آنا بعد کی زندگی میں ذہنی بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔
جریدے سلیپ میں شائع اس تحقیق میں لکھا گیا ہے کہ اکثر بچوں کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں مگر ان کا تسلسل آنے والی عمر میں سنجیدہ مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔نیند میں ڈراؤنے خواب دیکھنا، چیخیں مارنا اور اپنے جسم کے اعضا کو سوتے ہوئے مارنے سے بھی خطرہ بڑھ سکتا ہے۔بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے فلاحی ادارے ’ینگ مائنڈز‘ نے کہا ہے کہ یہ ایک اہم تحقیق ہے جس سے دماغی مرض کے ابتدائی عوامل کا پتہ چلایا جا سکتا ہ
ے۔اس تحقیق کے لیے ۶۸۰۰افراد کو ۱۲ سال کی عمر تک زیرِ نگرانی رکھا گیا۔اس سلسلے میں بچوں کے والدین کو باقاعدگی سے پوچھا گیا کہ ان کہ بچے کسی قسم کے سونے کے مرض یا مسائل سے دوچار تو نہیں اور اس تحقیق کے اختتام پر ان کے دماغی صحت کے تجزیے کیے گئے جیسا کہ ہذیانی کیفیت، دماغی ہیجان یا ان کی جانب سے ایسا سوچا جانا کہ ان کے افکار کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔اس تحقیق کے نتیجے میں ظاہر کیا گیا ہے کہ اکثر بچوں کو ان کے بچپن کے کسی حصے میں ڈراؤنے خواب دکھائی دیتے ہیں مگر۳۷ فیصد بچوں کے معاملے میں انہیں کئی سال مسلسل ڈراؤنے خواب دکھائی دیتے رہے ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ نیند کے مسائل کا علاج کرنے سے دماغی امراض سے بچاؤ ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔دس میں سے ایک بچے کو رات کے وقت دہشت انگیز خیالات یا خواب دکھائی دیے جو کہ تین سے سات سال کی عمر کے درمیان کے عرصے میں تھے۔یونیورسٹی آف وارِک کی تحقیق کرنے والی ٹیم نے کہا ہے کہ لمبے عرصے تک کے ڈراؤنے خوابوں کے حوالے سے مسائل بعد کی زندگی میں دماغی امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔ہر ۱۰۰۰بچے میں سے ۴۷ کو کسی نہ کسی قسم کے دماغی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔محققین میں سے ایک پروفیسر ڈائٹر وولک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ڈراؤنے خواب اور رات کے وقت دہشت انگیز خیالات اور خواب عام ہیں مگر ان کا جاری رہنا ثابت کرتا ہے کچھ سنجیدہ مسائل ہیں۔‘نیند اور دماغی امراض کے درمیان اب تک واضح نہیں ہے اور ایک نظریہ یہ ہے کہ تنگ کرنے یا ابتدائی زندگی میں صدماتی تجربات کے نتیجے میں بھی یہ علامات سامنے آ سکتی ہیں۔تاہم نیند کے مسائل کا علاج کرنے سے دماغی امراض سے بچاؤ ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔رات کے وقت دہشت ناک خواب یا خیالات کے دوران بچے کو تھوڑی دیر کے لیے جگانے سے اس سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔