نئی دہلی: پاکستان میں واقع کیرانہ پہاڑیوں کی بڑی چرچا ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر طرح طرح کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ اس سے متعلق ایک سوال بھارتی فوجی حکام سے بھی پوچھا گیا۔
اس کے جواب میں بھارتی فضائیہ کے ڈی جی ایئر آپریشنز ایئر مارشل اے کے بھارتی نے کہا کہ کیرانہ پہاڑیوں پر ان کی طرف سے کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں کیرانہ ہلز میں جوہری تنصیب کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بھارت نے صاف انکار کر دیا ہے کہ اس کی طرف سے کیرانہ پہاڑیوں پر کوئی حملہ ہوا ہے تو پھر یہ موضوع بحث کیوں ہے۔ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے اور میڈیا میں اس کے بارے میں کیا جانکاری موجود ہیں، آئیے جانتے ہیں۔
کرانہ ہلز پاکستان کے ضلع سرگودھا میں واقع ہے۔ یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ پاکستانی وزارت دفاع اس جگہ کا خاص خیال رکھتی ہے۔ اس پہاڑی کو بلیک ماؤنٹین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پاکستان نے 1970 میں ہی یہاں ریڈار نصب کر دیا تھا۔ سرگودھا شہر اور ربواہ کے درمیان کا علاقہ کرانہ ہلز کہلاتا ہے۔
اس علاقے میں پاکستان کا ایک اہم ایئربیس بھی ہے۔ ان میں سے ایک ائیر بیس کا نام مصحف ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان F-16 اور JF-16 لڑاکا طیارے مصحف ایئربیس پر تعینات رکھتا ہے۔
اس کی دیکھ بھال بھی یہاں کی جاتی ہے۔ یہ پاکستان کا کمانڈ ہیڈ کوارٹر ہے۔ سرگودھا ایئر بیس بھی اس کے قریب ہے۔ خوشاب نیوکلیئر کمپلیکس یہاں سے تقریباً 75 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
تقریباً 68 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی اور 39 کلومیٹر کے دائرے میں گھری ہوئی کرانہ پہاڑیوں کو کثیر سطحی دفاعی نظام کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے۔
اگرچہ کسی کے پاس واضح جانکاری نہیں ہے لیکن مختلف میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کیرانہ پہاڑیوں میں 10 یا اس سے زیادہ سرنگیں بنائی گئی ہیں اور ان سرنگوں میں ایٹمی ہتھیار رکھے گئے ہیں۔
بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس نے 2023 میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس میں کیرانہ پہاڑیوں کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ اس کے مطابق سرگودھا گیرسن کرانہ ہلز کے اندر ایک بڑا کمپلیکس ہے۔
یہ ایک سب کریٹیکل ایٹم ٹیسٹنگ کی جگہ ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے 1983-1990 کے درمیان اپنے جوہری پروگرام کو تیار کیا اور اس کے آس پاس علاقے میں گولہ بارود کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکی سیٹلائٹ کے پاس اس علاقے کی ایک ایسی تصویر ہے، جس میں جوہری سرگرمیوں کو قید کیا گیا ہے۔ غالباً ایم-11 میزائل جسے پاکستان نے چین سے حاصل کیا، اسے بھی یہیں پر رکھا گیا ہے۔
بھارت نے کہاں حملہ کیا؟
بھارتی فضائیہ نے پاکستان کے اندر 11 فوجی اڈوں پر فضائی حملے کیے۔ ان اڈوں میں رفیقی، مرید، نور خان، رحیم یار خان، سکھر، چونیین، پسرور اور سیالکوٹ کے اہم ائیر بیس شامل تھے۔ پاکستانی فوج کا ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں ہے۔
راولپنڈی کے قریب نور خان فوجی اڈے کو بھی بھارتی فضائیہ نے نشانہ بنایا۔ وہیں پاکستان نے بھی ہندوستان کے کئی فوجی اڈوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔
سوشل میڈیا پر کیا خبر ہے؟
سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ امریکی محکمہ توانائی کے اٹامک ایمرجنسی ہیلپ ایئر طیارے کو پاکستان میں دیکھا گیا۔ اسے فلائٹ ریڈار کے ٹریکنگ میں بھی دکھایا گیا ہے۔ تاہم کسی بھی باوثوق ذریعے نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ یہ دعویٰ صرف قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔
پاکستان نے باضابطہ طور پر امریکی طیارے کی موجودگی کا اعتراف نہیں کیا ہے، لیکن فلائٹ ریڈار 24 نے بی 350 اے ایم ایس ویریئنٹ ٹیل نمبر این 111 ایس زیڈ کو ٹریک کیا۔ اوپن سورس انٹیلی جنس کے مطابق یہ ٹیل نمبر ایک امریکی طیارے کا تھا، جسے امریکہ نے 2010 میں پاکستان کو سونپا تھا۔
ایک انگریزی اخبار نے لکھا کہ بھارت نے پاکستانی فوجی اڈوں پر کروز میزائلوں سے حملہ کیا۔ اس حملے نے راولپنڈی میں واقع آرمی ہیڈ کوارٹر کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔
حالانکہ تاحال یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کروز میزائلوں کے اس حملے سے کیرانہ ہلز متاثر ہوئی ہے یا نہیں لیکن عمومی طور پر بحران کی صورت حال ضرور پیدا ہوئی اور دونوں ملکوں کے بیچ ٹکراؤ میں شدت آنے کے ساتھ دنیا ضرور جوہری ہتھیاروں کے تعلق سے خدشات کا شکار ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر نے بھی اپنے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں بھارت پاکستان جنگ بندی کو جوہری جنگ رکوانے سے تعبیر کیا۔