غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائی کے خلاف اسرائیلی معاشرے کے اندر سے مخالفت کی آوازیں زور پکڑ رہی ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جیسے جیسے جنگ ایک نئے اور خونریز مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، متعدد سیاسی اور عسکری شخصیات حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کر رہی ہیں۔
اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) کے سابق نائب سربراہ اور بائیں بازو کے سیاستدان یائر گولان نے اسرائیلی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے سخت رائے کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے ہوش کے ساتھ ریاستی رویہ اختیار نہ کیا تو اسرائیل ایک عالمی تنہائی کا شکار ریاست بن جائے گا، جیسا کہ کبھی جنوبی افریقہ تھا۔
یائر گولان نے مزید کہا کہ ایک مہذب ریاست عام شہریوں کے خلاف جنگ نہیں چھیڑتی، بچوں کو قتل کرنا تفریح نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی آبادی کو خالی کرانا اس کا ہدف ہونا چاہیے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے یائر گولان کے ان بیانات کو خون آلود بہتان قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔
اسرائیل کے سابق وزیر دفاع اور IDF کے سابق چیف آف اسٹاف موشے بوگی یعلون نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (X) پر مزید سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم حکومتی پالیسی ہے، جس کا واحد مقصد اقتدار کو قائم رکھنا ہے اور یہی پالیسی ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق اسرائیل وہی ملک ہے جہاں 19 ماہ قبل حماس کے حملے کے بعد عوام میں جنگی جذبات عروج پر تھے، لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے۔
اسرائیلی نیوز چینل کے حالیہ سروے کے مطابق 61 فیصد اسرائیلی شہری جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی واپسی کے حامی ہیں، جبکہ صرف 25 فیصد مزید عسکری کارروائی اور غزہ پر قبضے کے حق میں ہیں۔
اسرائیلی حکومت اب بھی حماس کو ختم کرنے اور تمام یرغمالیوں کو بازیاب کروانے کے دعوے پر قائم ہے، اور وزیر اعظم نیتن یاہو مکمل فتح کا وعدہ کرتے ہیں۔ ان کے کچھ حامی اب بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن ملک کی ایک بڑی آبادی بے چینی، مایوسی اور بے بسی کا شکار نظر آتی ہے۔
سابق اسرائیلی یرغمالی مذاکرات کار گرشون باسکن کے مطابق اکثریتی یرغمالی خاندان اس جنگ کے خاتمے اور کسی باوقار معاہدے کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک چھوٹی اقلیت سمجھتی ہے کہ پہلے حماس کا خاتمہ ضروری ہے، اس کے بعد یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہوگی۔
دوسری جانب غزہ میں تباہی کے مناظر اور اسرائیل کی جانب سے 11 ہفتوں بعد محاصرہ جزوی طور پر ختم کرنے کے باوجود، اب تک صرف محدود انسانی امداد ہی علاقے میں داخل ہو سکی ہے۔