غزہ کا محاصرہ توڑنے کے مشن پر روانہ کشتی میڈلین غزہ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ یہ اقدام عالمی اداروں کی خاموشی کے باوجود فلسطینی عوام کے لیے امید کی ایک نئی کرن بن گیا ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یورپ سے غزہ کا محاصرہ توڑنے کے مشن پر روانہ ہونے والی کشتی میڈلین غزہ کے قریب پہنچ گئی ہے۔
میڈلین نامی یہ کشتی “فریڈم فلوٹیلا” کا حصہ ہے، جو ایک علامتی اور احتجاجی مشن کے طور پر جنوبی اٹلی کے شہر کاتانیا کی بندرگاہ سے روانہ ہوئی ہے۔ اس کا مقصد غزہ میں محصور 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی مدد کرنا اور اسرائیلی محاصرہ توڑنا ہے۔
18 میٹر لمبی اس کشتی میں 12 بین الاقوامی کارکن سوار ہیں، جن میں معروف سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور آئرش اداکار لیام کننگھم بھی شامل ہیں۔ یہ کارکنان خوراک، ادویات اور طبی سامان کے ساتھ غزہ کی جانب روانہ ہوئے ہیں۔
میڈلین وہ 36ویں کشتی ہے جو 2007 سے اسرائیلی محاصرہ توڑنے کے مقصد سے غزہ کی طرف روانہ کی جارہی ہے۔ اس مرتبہ بھی یہ بیڑا بین الاقوامی رضاکاروں کی ہمدردی اور انسانی غیرت کی علامت بن کر اُبھرا ہے۔
اس کشتی کا نام میڈلین کلوب کے نام پر رکھا گیا ہے جو غزہ کی کم عمر ترین ماہی گیر لڑکیوں میں سے ایک ہے۔ اسرائیلی حملے میں میڈلین نے اپنے والد کو کھو دیا جو اس کے خاندان کا واحد کفیل تھا۔ جنگ کے دوران بھی میڈلین ماہی گیری کرتی رہی اور مچھلیوں کو بازار میں بیچ کر اپنے گھر کا خرچ چلانے لگی۔
تاہم صہیونی افواج نے میڈلین اور اس کے شوہر کی کشتی کو تباہ کر دیا، جو ان کی واحد روزی کا ذریعہ تھی۔ بعد ازاں آئرلینڈ میں ایک دوست کے توسط سے اسے اس کشتی مشن کا علم ہوا، جو غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے نکلا تھا۔ اس کشتی کو میڈلین کی مزاحمت اور استقامت کے اعتراف میں اس کے نام سے موسوم کیا گیا۔
امدادی ٹیم کے رکن تھیاگو آویلا نے میڈیا سے گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ کشتی “میڈلین” کے نیویگیشن سسٹم مکمل طور پر ناکارہ ہوچکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم اس وقت غزہ کے ساحل سے 100 بحری میل کے فاصلے پر ہیں اور یہ سفر فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے جذبے کے تحت جاری ہے۔
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑی ہو اور اس طویل و تباہ کن محاصرے کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم صہیونی حکومت کی طرف سے خطرات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھیں گے تاکہ غزہ کے باشندوں پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ ممکن ہو۔
تھیاگو کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسرائیلی فوج ہتھیاروں کے ساتھ ہماری راہ روکنے کو تیار ہے، لیکن ہمیں خوف نہیں۔ ہمارے اوپر ڈرون مسلسل پرواز کر رہے ہیں اور ہمارا مواصلاتی نظام بھی خلل کا شکار ہوچکا ہے۔ ہمیں جن خطرات کا سامنا ہے وہ ان مظالم کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، جو غزہ کے معصوم فلسطینی عوام روزانہ برداشت کر رہے ہیں۔
کشتی میڈلین میں سوار فرانسیسی رضاکار ڈاکٹر بابتیس آندری نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ہماری کشتی کے اوپر کئی گھنٹوں سے اسرائیلی ڈرون طیارے پرواز کر رہے ہیں، جو عملے پر شدید دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشتی میں موجود ٹیم کا فرانس کی وزارت خارجہ سمیت مختلف عالمی اداروں سے مسلسل رابطہ برقرار ہے تاکہ کسی ممکنہ حملے یا رکاوٹ کی صورت میں فوری مداخلت کی جاسکے۔
ڈاکٹر آندری نے مزید کہا کہ یہ کشتی تقریبا ایک ٹن طبی امداد لے کر جارہی ہے۔ اگرچہ یہ مقدار علامتی ہے اس کے باوجود غزہ میں تیزی سے بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات کے تناظر میں اس کا اثر بہت گہرا اور بامعنی ہے۔
دوسری جانب صہیونی وزیر جنگ یسرائیل کاتز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میں نے اسرائیلی فوج کو واضح حکم دے دیا ہے کہ کسی صورت میڈلین کشتی کو غزہ نہ پہنچنے دیا جائے۔
انہوں نے اس کشتی میں سوار انسانی حقوق کے کارکنان کو یہود دشمن قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ میں ان افراد سے صاف صاف کہتا ہوں کہ بہتر ہے واپس لوٹ جائیں، کیونکہ غزہ تک آپ کا پہنچنا ممکن نہیں۔