شام میں سنہ دو ہزار گیارہ سے مسلح شورش جاری ہے
شام کے صدر بشر الاسد نے دعویٰ کیا ہے کہ تین سال سے شام میں جاری لڑائی ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچی ہے جس میں ان کو برتری حاصل ہے۔
بشر الاسد نے یہ بیان دمشق یونیورسٹی میں ایک خطاب میں کیا-
سرکاری فورسز، حکومت مخالف باغی گروپوں کی گرفت میں علاقوں کو واپس اپنے اختیار میں لے رہے ہیں۔
شام میں جاری جنگ میں اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں بےگھر ہو گئے ہیں-
بشر الاسد کا کہنا ہے کہ شام میں بحران اب ایک فیصلہ کن موڑ پر آ گیا ہے۔ ان کا کہا ہے کہ شام کی فوج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے-
بی بی سی کی نامہ نگار لیز ڈوسٹ
“بشر الاسد کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اسد کا اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے جبکہ ان کے مخالفین اور مغربی ممالک ان سے صدر کا عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔”
سرکاری فوجوں نے حالیہ مہینوں میں ملک کے شمالی حصوں کو جنوب سے ملانے والی ایک اہم شاہراہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے اور باغی گروہوں کو رسد حاصل کرنے کے اہم راستہ بند کر دیا ہے۔
توقع ہے کہ صدر اسد جلد ہی تیسری مرتبہ صدر کے انتخاب میں حصہ لینے والے ہیں۔
بی بی سی کی نامہ نگار لیز ڈوسٹ کہتی ہیں کہ بشر الاسد کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اسد کا اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے جبکہ ان کے مخالفین اور مغربی ممالک ان سے صدر کا عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے اطلاع دی ہے کہ شام کی فضائیہ نے اتوار کے دن دمشق کے قریب بمباری کی۔ دومہ کے مضافات میں اس بمباری میں 20 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔
شام کی سرکاری ایجنسی کے مطابق دمشق شہر میں ایک مارٹر حملے میں ایک شخص ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے۔
جمعہ کو سرکاری اور باغی گروپوں نے ایک دوسرے پر الزام لگایا کہ کفر زیتا کے گائوں میں زہریلی گیس استعمال کی گئی۔ اس میں دو افراد کی جانیں گئیں۔ پچھلے سال ایک کیمیائی حملے میں سینکڑوں افراد مارے گئے-