اندور(بھاشا)زیادہ وزن کی وجہ سے ’آموں کی ملکہ ‘ کے نام سے مشہور ’نور جہاں‘کے شوقینوں کیلئے اچھی خبر ہے۔ بہتر موسم کے مد نظر آم کی اس خاص قسم کا اوسط وزن گذشتہ سال کے مقابلہ ۳۰۰گرام برھ سکتا ہے۔ افغانستانی نسل کء اس بھاری بھرکم آم کے درخت مدھیہ پردیش کے قبائلی اکثریت والے علی راج پور ضلع کے کٹھی واڑہ علاقہ میں ہی پائے جاتے ہیں یہاں سے تقریباً ۲۵۰کلو میٹر دور کٹھی واڑہ کے آم کاشتکار شیو راج سنگھ جادھو نے آج فون پر بھاشا کو بتایا کہ گذشتہ سال نورجہاں آم کا اوسط وزن ۴کلو ۲۰۰گرام کے آس پاس تھا اس سال اس کا اوسط وزن بڑھ کر ۵ء۴کلو ہوجانے کی امید ہے۔
جادھو نے بتایا کہ مارچ میں بے موسم بارش اور ژالہ باری کے سبب کٹھی واڑہ علاقہ میں دوسری اقسام کے آم کے درختوں کے پھل بڑی تعداد میں گر گئے لیکن نوجہاں کے پھل اپنے زیادہ وزن اور ڈال سے مضبوط پکڑ کے سبب قدرت کے اس قہر سے محفوظ رہے۔آم کاشتکار نے بتایاکہ نورجہاں کے درختوں کے پر گذشتہ دسمبر میں بور آنا شروع ہوا تھا اس کے پھل مئی کے آخر تک تیار ہوںگے۔ نورجہاں کے پھل تقریباًایک فٹ تک لمبے ہو سکتے ہیں۔ان کی گٹھلی کا وزن ہی ۱۵۰سے ۲۰۰ گرام کے درمیان ہوتا ہے یعنی صرف ایک آم سے کوئی چھوٹا کنبہ بڑے آرام سے پیٹ بھر سکتا ہے۔
نورجہاں کا موجودہ وزن حیرت زدہ کرنے والا ہے لیکن یہ بات دانتوں کے نیچے انگلی دبانے پر مجبور کر دیتا ہے کہ ایک دہائی سے قبل اس کا وزن ۷کلو گرام تک ہوتا تھا۔ یعنی پھلوں کے راجہ آم کی یہ بھاری بھرکم ملکہ ہندوستان میں اپنی اکلوتی پناہ گاہ میں سابقہ برسوں کے مقابلہ کافی دبلی ہو چکی ہے۔ جھابوا کے زرعی سائنسی مرکز کے پروگرام کوآرڈینیٹر ڈاکٹر آئی ایس تومر نے بتایا کہ آب وہوا میں تبدیلی کے سبب درجہ حرارت میں غیر معمولی تیزی اور معقول دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے نورجہاں کے پھلوں کا وزن کم ہونے کے اہم اسباب میں شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کٹھی واڑہ علاقہ میں نورجہاں کے کچھ ہی درخت باقی بچے ہیں جو دہائیوں قدیم ہیں اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ان کی پیداوات میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے۔ مسٹر تومر نے کہا ک آموں کی اس خاص قسم کوآئندہ نسلوں کیلئے اس کی جدید قسم تیار ک
رنا ضروری ہے جو آب وہوا کی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے خطرات کا سامنا کرسکے۔