نئی دہلی 30 اپریل ( یو این آئی) سولہویں لوک سبھا انتخابات میں کم سے کم میڈیا کی سطح پر چلنے والی لہر ساتویں مرحلے کی پولنگ کے ساتھ بظاہرمودی کی جگہ پرینکا لہر میں تبدیل ہو تی نظر آرہی ہے ۔ پچھلے پانچ چھ دنوں میں کانگریس کی انتخابی مہم میں پرینکا گاندھی پر میڈیا کے فوکس نے سیاسی پنڈتوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔بادی النظر میں جس طرح ماحول بدلا ہے اسے آج اتر پردیش کے 14 لوک سبھا حلقوں کے انتخابات کے دوران بڑے خاموش طریقے سے محسوس کیا گیا ۔ یو پی میں ریاستی سطح پر چوتھے مرحلے کی اس پولنگ میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور بی جے پی کے سربراہ راج ناتھ سنگھ سمیت 233 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہو نے جا رہا ہے۔ابھی پچھلے دنوں تک جس طرح میڈیا کو مسلسل اپنی طرف متوجہ رکھنے میں بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار مسٹر نریندر مودی نے غیر معمولی کامیا بی حاصل کی تھی ٹھیک اسی پیمانے پر پرینکا گاندھی نے ادھر کچھ دنوں سے ذرائع ابلاغ خصوصاً الیکٹرونک میڈیا کو بی جے کے خلاف اپنی محاذ آرائی کی طرف کھینچا ہے۔سیاسی حلقوں کے نزدیک پرینکاایک دم سے کانگریس کی اسٹار کمپینر بن کر ابھری ہیں اور مخالف کیمپوں میں اس وقت زبردست کھلبلی مچی ہوئی ہے۔اگرچہ کانگریس اور بی جے پی کے ذمہ داروں نے اس حوالیسے اثبات و نفی میں کو ئی دوٹوک رائے زنی نہیں کی لیکن بی جے پی کی شعلہ بیان مقرراوما بھارتی نے جھانسی میں صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے پرینکا کی انتخابی مہم کو راہل کی ناکامی کی بھر پائی کی کوشش پر محمول کیا ہے۔بہر حال تیور بتاتے ہیں کہ یو پی اے کی قیادت کرنے والی حکمراں پارٹی پرینکا کی اس مبینہ لہر کو یو پی تک محدود نہیں رکھنا چاہتی بلکہ بہار میں بھی ان کی خدمات لینا چاہتی ہے۔فیملی پر پے بہ پے حملوں اور بہتان تراشیوں کامعیار مسلسل پست ہونے کے آزمائشی مرحلے میں چلنے والی مبینہ پرینکا لہر میں ایک سے زیادہ پہلووں کا عمل دخل ہے ۔اندراگاندھی سے پرینکا کی مشابہت جہاں انہیں لائق توجہ بناتی ہے وہیں یشودھا بین کے حوالے سے مسٹر مودی کی شبیہ عورتوں کے نزدیک جس طرح منفی طور پر متاثر ہوئی ہے اس نے بھی پرینکا کومیڈیا میں کانگریس کی انتخابی مہم کا نمایاں حصہ بنا دینے میں خاصہ رول ادا کیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب اوپینین پول کی دوڑ ختم ہو چکی اور حقیقت پسندانہ جائزے شروع ہو چکے ہیں لہروں کی یہ تبدیلی کتنی اثر انداز ہوتی اس کا پتہ تو 16 مئی کو چلے گا لیکن ان دونوں لہروں سے ہٹ کر جو اندازہ لگایا جارہا ہے اس کے مطابق کانگریس کا معکوس سفر جہاں 132سیٹوں پر ختم ہو تا نظر آتا ہے وہیں بی جے پی 116 سے آگے بڑھتے ہوئے 164 کے اسکور تک پہنچ رہی ہے۔قبل ازیں بی جے پی کو زیادہ سے زیادہ 280 اور کم سے کم 225 سیٹوں پر کامیاب دکھانے کی جو کوشش کی گئی تھی اس میں خود ساختہ پولسٹروں اور ماہرین نے کسی منطق کے بغیر اعداد و شمار پیش کر دیئے تھے۔