سب سے پہلے تو میں اپنے دینی بھائیوں سے یہ عرض کروں گا کہ اس پارلیمانی انتخاب کے سلسلہ میں اپنی رائے ضروردیں کیونکہ یہ آپ کا آئینی حق اور مذہبی ذمہ داری بھی ہے ۔اس لئے کہ ووٹ یا رائے دہی کو اس دین حنیف میں ایک ہی وقت میں تین حیثیت حاصل ہے ،گواہی،شفاعت اوروکالت تینوں حیثیت سے ہمارا ایک ایک ووٹ قیمتی ہے ۔یہ ووٹ اس بات کی گواہی ہے کہ وہ امید وار جس کو ہم نے ووٹ دیا ہے وہ ہماری نظر میں ایماندار و امانت دار ہے ،اور اس بات کی سفارش کہ اسی شخص کو اس پارلیمانی حلقہ کا نمائندہ بنایا جائے نیز اس حلقہ کے تمام شہریوں کی ضرورتوں کو ایوان تک پہونچانے اور ان کو منظور کرانے کا ذمہ دار یعنی وکیل بنا نا ہے ۔لہٰذاپورے ہوش وحواس کے ساتھ نہایت باہمی اتحادو اتفاق کے ساتھ ووٹ دیجئے تاکہ آپ کے یہ قیمتی ووٹ بکھر کر اپنی قدروقیمت نہ کھو بیٹھیں۔
ان دنوں ملک میں سولہویں لوک سبھا الیکشن بڑے زورو شور کے ساتھ چل رہاہے ،آزاد ہندوستان کی اس سنڑسٹھ سالہ طویل تاریخ میں یہ عام انتخاب کو سب سے زیادہ حساس اور نازک قراردیا جارہا ہے اور یہ حساسیت و نازکیت دراصل برقی اور پرنٹ دونوں قسم کے ذرائع ابلاغ کی محنتوں کا نتیجہ ہے جس کو ہم اور آپ کہیں بادل ناخواستہ اور کہیں بے دل ناخواستہ دیکھنے اور سننے پر مجبور ہیں۔
انتخابی امیدواروں کو حسب روایت سابقہ اس بار بھی عام انتخابات کے دوران عوام کو اپنی حمایت میں لینے کے سیاسی ریلیوں اور انتخابی جلسوں کے انعقاد کی اجازت دی گئی ہے، جس کا سیاسی لیڈران بھرپور طریقہ سے فائدہ اٹھا تے ہوئے ملک میں ہر طرف ہندومسلم فسادات کی فضا گر م کررہے ہیں ، یہ سیاسی لوگ اپنی روٹی سینک نے کے لئے عوام وخواص کو بھی آپس میں لڑنے پر مجبور کردیتے ہیں، کبھی آسام جل رہا ہے تو کبھی یشونت پورہاوڑہ ایکسپریس ٹرین میں بم دھماکہ ہوتاہے اور کئی معصوم کی جانیں جاتی ہیں ۔ کچھ دنوں پہلے ریاست بہار کے ضلع نوادہ سے لوک سبھا سیٹ کے بی جے پی امیدوار گری راج سنگھ نے ریاست جھارکھنڈ کے ضلع گوڈ ا میں ایک منافرت آمیز سیاسی بیانی دیتے ہوئے اپنے آقا انسانیت کے قاتل اور گجرات کے آدم خور نریندر مودی کی حمایت میں اپنا دماغی تواز ن کھو بیٹھنے کے بعد جنوں میں یہاں تک بک گئے کہ جو مسلمان بھی نریندر مودی کی مخالفت کر تے ہیں انہیں عام انتخابات کے نتائج کے منظر عام پر آجانے کے بعد ہندوستان سے پا کستان ہجرت کر جانا ہوگا ۔
خود کو اصلی ہندوستانی بتلانے والے ہم وطن ہندو بھائیوں اور مسلمانوں کو پاکستان کی راہ دکھانے والے فرقہ پرست ڈکیت سیاست دانوں کو خوب اچھی طرح یہ حقیقت اپنے ذہن و دماغ میں بسالینی چاہئے کہ جس مسلم قوم کے جیالوں نے نوے سالوں تک انگریزوں کی غلامی میں جکڑے ہو ئے اس ملک کو آزادی سے ہمکنار کیا ،اور انہی گوری چمڑیوں کے ہاتھوں ملک کی رہی سہی عزت لٹ جانے کے بعد اس کو از سرنو شادابی و ہریالی سے واقف کرایا وہ کسی بھی حال میں اس ملک کو خیرآبا د نہیں کہ سکتے ۔ملک کی پر امن فضا میں زہر نفرت گھولنے والے جھوٹی سیاست کے علمبرداروں کو یہ بات بھی یا د رکھنے چا ہئے کہ مسلمانوں نے اور خاص طور سے علماء دین اور اکابر اسلام نے اس گلستان ہند کی آبیاری اپنے قلب و جگر سے کرتے ہوئے ضرورت پڑنے پر اس کے عوض اپنے جسموں کے سارے لہو غاصب و ظالم انگریزوں کو تول دئے اور انکے لگائے ہو پھانسی کے پھندوں کو اسی ملک کی آزادی کی خاطر خوشی خوشی اپنی گردنوں کی سلامی دی ۔آزادی ہند کی خاطر مسلمانوں کے آباء واجداد کی یہ پیش کردہ قربانیاں ہر وقت اور ہر آن ان کے ذہنوں اور دلوں میں نئے جوش و ولولے پید اکرتی ہیں اور تا قیامت کرتی رہیں گی،پھریہ کہ وقت پڑنے پر جس قوم کا بچہ بچہ شوق شہادت میں رقص کرنے لگتا ہو، جس کے صالح نوجوانوں پر ایک خاص قسم کی کیفیت پید ا ہوجاتی ہو اور جس کے بوڑھوں پر سابقہ جوانی لوٹ آتی ہو یہ سوچنا کہ وہ ان بزدل سیاسی لوگوں کی بھرکیوں سے مرعوب ہوکر ملک سے راہ فرار اختیار کرلے گی یا اس کو بھگا دیئے جانے کا تصور نہایت بچکانہ سوچ اور ایک طرح کی مجنونانہ حرکت اور مجرمانہ عمل ہے ۔اگر کوئی ذی عقل و خرد شخص تاریخ کے انمٹ نقوش پریقین رکھتے ہوئے حکومت و اقتدار کے نشہ میں بد مست ہو کراس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے تو وہ الیکشن کے نتائج کے بعد کیا اس سے پہلے ہی اپنے اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے مقابلہ میں اتر آئیں جو جیتے وہی سکندر ۔
1947 ء میں ہوئی غلطی کو دہراتے ہوئے مسلمانوں کا ہندوستان چھوڑ کر پاکستان یا کہیں اور چلا جانا تو دور کی بات اپنی رہائشی جگہوں سے نقل مکانی کرنا یا دب کر کسی بھی معاملہ میں صلح کرنا بھی بہت محال و ناممکن ہو گا ۔بلکہ سچ یہ ہے کہ ہماری کوششیں کل بھی تھیں اور آج بھی یہی ہے کہ پاکستان وبنگلہ دیش پھر سے اسی ہندوستان میں ضم ہو جائے حتیٰ کہ بورما اور افغانستان کا وہ حصہ جو پہلے ہمارے ملک کا حصہ تھا وہ بھی اسی ہندوستان کا ایک جزء بن کر ایک بار پھر اکھنڈ بھارت کا درجہ حاصل کرلے چہ جائیکہ ہم کبھی اس ملک سے ہجر ت کر جائیں !
جاری رہے گی جنگ ہوائوں صبح تک ۔یہ کس نے کہ دیا کہ بجھا جار ہا ہوںمیں (یو این این)