کہتے ہیں جو ہمیشہ کھل کر ہنستا ہے وہ کبھی بیمار نہیں ہوتا اور یہ بھی سچ ہے کہ جو دوسروں کو ہنساتا ہے اس کی زندگی میں درد ہوتا ہے ایسے انسان قابل قدر ہوتے ہیں جو دوسروں کو ہنسانے کے لئے اپنے درد چھپالیتے ہیں۔ اسٹیج ہو کہ فلم ایسے کئی مزاحیہ اداکار رہے ہیں جن کی ذاتی زندگی ٹریجڈی سے بھری پڑی رہی خیر اسٹیج ہو ٹی وی سیریل ہو کہ فلمیں مزاحیہ فنکاروں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اپنی اداکاری سے کسی کو رلانا جتنا آسان ہے ہنسانا اتنا ہی مشکل ہے ۔ عام خیال یہ ہے کہ مزاحیہ اداکاری سب سے آسان کام ہے لیکن یہ غلط ہے چہرے بنانا، مختلف آوازیں نکالنا، دوسروں کی نقالی کرنا، آؤٹ پٹانگ حرکتوں سے ہنسانے کی کوشش کرنا ایسے فنکاروں کو کامیابی ملنا بہت مشکل ہے۔ وقتیہ طور پر انہیں، پہچان تو مل جاتی ہے لیکن یہ دیرپا قائم نہیں رہتی ۔ ان دنوں ایک نئی تبدیلی بھی دیکھنے میں آنے لگی ہے وہ ہے نقل کے بل بوتے پر مزاحیہ فنکار بن جانا کہتے ہیں نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ جب عقل ہوتو نقل کی کیا ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں نقل کرنے والے فنکار تو ہیں لیکن خود سے مزاح پیدا کرنے والے فنکاروں کی ہندی فلم انڈسٹری میں کافی کمی ہے۔ اسی وجہ سے نہ ہی بالی ووڈ میں مزاحیہ اسکرپٹس لکھنے والے ہیں نہ اداکاری کرنے والے اور کبھی کبھار جو اچھی کامیڈی فلمیں بن جاتی ہیں اس کے کلکشن تو چاندی چاندی ہوجاتے ہیں۔ چلتے ہیں ہندی فلموں کی پہلی مزاحیہ فلم ’’البیلا‘‘ کی طرف جو 1951ء میں ریلیز ہوئی تھی جسے بھگوان دادا اور گوپ نے ڈائرکٹ کیا تھا۔ یہ فلم زبردست پسند کی گئی اور یہ اس سال کی غیر معمولی کمائی کرنے والی فلم بھی ثابت ہوئی۔ اسی دہے یعنی سن 1950ء میں گرودت نے مزاحیہ فنکار جانی واکر کے ساتھ اپنی فلم ’’پیاسا‘‘ بنائی جس کے ایک گیت ’’سرجو تیرا چکرائے یا دل ڈوبا جائے‘‘ نے جانی واکر کو راتوں رات اسٹار بنا دیا وہ اس گیت کے ذریعہ ہی ہندی فلموں کے ایک بہترین کامیڈین کے طور پر ابھرے۔ اس کے بعد ہی ایک اور فلم ’’جانی واکر ایم اے‘‘ نام سے بنائی گئی اسے بھی لوگوں نے خوب پسند کیا اسی اثناء میں تینوں گنگولی بھائیوں اشوک کمار، کشور کمار، اور انوپ کمار نے سب سے بڑی ہٹ کامیڈی فلم ’’چلتی کا نام گاڑی‘‘ عوام کو دی اس کی کامیابی سے علاقائی فلمساز بھی متاثر ہوئے اور مرہٹی میں اسے ’’ایجہ بیجہ تیجہ‘‘ کے نام سے ری میک کیا گیا ۔ اس فلم نے بھی خوب بزنس کیا سن 1960ء کے لئے محمود کو کنگ آف کامیڈی کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ہندی فلموں میں پہلی بار رسک لیتے ہوئے ہارر کامیڈی کی شروعات کی ۔ ان کا یہ کانسپٹ انڈسٹری کے لئے بالکل نیا تھا اس کے باوجود وہ پر اعتماد تھے اس پر یہ کے انہوں نے ہی ابھرتے میوزک کمپوزر آر ڈی برمن کو آزادانہ موسیقی دینے کا موقع دیا۔ ان کی فلم ’’چھوٹے نواب‘‘ نے کامیابی حاصل کی اس زمانے میں شمی کپور کو بڑے اسٹار کا درجہ حاصل تھا اور انہوں نے بھی کامیڈی کو پسند کیا اور ’’دل تیرا دیوانہ‘‘ میں محمود کے ساتھ برابر کا رول کرنے میں رضامندی کی اور فلم کامیاب رہی۔ محمود ان دنوں کامیڈی فلموں کے لئے ریڑھ کی ہڈی بن گئے تھے سبھی فلمساز محمود کے بغیر اپنی فلموں کو ادھورا سمجھنے لگے یہی نہیں شائقین بڑے اسٹارس کی فلموں میں محمود کی موجودگی کی وجہ سنیما گھروں کا رخ کرتے۔ محمود نے ’’سادھو اور شیطان‘‘ پیار کئے جا‘‘ کشور کمار کے ساتھ کام کیا۔ پھر ان دونوں نے پڑوسن میں ایک ساتھ کام کیا۔ بسواجیت اور مالا سنہا اسٹار ’’میں سندر ہوں‘‘ جس میں محمود نے مرکزی کردار نبھایا تھا ایک بڑی ہٹ ثابت ہوئی۔ آئی ایس جوہر جنہوں نے محمود کے ساتھ دوستی بڑھائی اور ان کے ساتھ دو آؤٹ اینڈ آؤٹ کامیڈی فلمیں ’’جوہر محمود ان گوا‘‘ اور ’’جوہر محمود ان ہانگ کانگ‘‘ بنائیں جو اس زمانے کی کامیاب فلمیں ثابت ہوئیں۔ محمود خود نے بھی کامیڈی فلمیں پروڈیوس کرنی شروع کیں جن میں ’’گرم مسالہ‘‘ ’’بامبے ٹو گوا‘‘ جنی اور جانی، کنوارا باپ، سب سے بڑا روپیا‘‘ دو پھول شامل تھیں یہ تمام فلمیں ایک ہی قطار میں ایک کے بعد دیگرے ریلیز ہوتی گئیں۔ اور کامیابی بھی حاصل کرتی رہیں۔ محمود کی اداکاری کو زبردست سرہایا جانے لگا۔ اس زمانے میں آئی سسپنس مرڈر موضوع پر بنی فلم ’’گمنام‘‘ میں ان پر فلمایا گیا گیت ’’ہم کالے ہیں تو کیا ہوا دل والے ہیں‘‘ نے ہنگامہ مچاکر رکھ دیا۔ اس گیت کے لئے زبردست سیٹ بنوایا گیا تھا کیونکہ وہ اس وقت ایک بڑے اسٹار، کامیڈین بن چکے تھے۔ اداکار جیسے راجندر ناتھ، اتپل دت، کشور کمار، دیون ورما نے بھی شائقین کے لئے اپنی اداکاری کے ذریعہ ہنسی کا سامان فراہم کیا۔ رشی کیش مکرجی نے اپنی فلموں ’’خوبصورت‘‘ چپکے چپکے، گول مال‘‘ باسو چٹرجی نے ’’کھٹا میٹھا‘‘ ’’شوقین‘‘ ’’چھوٹی سی بات‘‘ گلزار نے ’’انگور‘‘ ’’نمکین‘‘ جیسی فلموں کے ذریعہ عوام کو زبردست کامیڈی فلمیں دیں۔ اسرانی نے شعلے، آج کی تازہ خبر‘‘ جیسی فلموں میں کامیاب اور یادگار کامیڈی رول کئے۔ سورما بھوپالی والا جگدیپ کا کردار بھی سدابہار بن کر رہ گیا۔ سن 1980ء میں کامیڈی فلموں میں نئی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ دور بدلنے لگا اور ہیروز خود کامیڈی کرنے لگے۔ ایسے میں اتپل دت نے کئی فلموں میں کامیڈی ویلن کے کردار نبھائے ۔ شکتی کپور نے کامیڈین اور ویلن کے طور پر نام کمایا۔ اس وقت انہوں نے دو دو زمروں میں بہترین اداکاری کے فلم فیر ایوارڈس لئے۔ انہی دنوں قادر خان اور جانی لیور نے بھی ساوتھ کے ڈائرکٹرس کی جانب سے
بنائی گئی فلموں کے ذریعہ عوام کا دل جیتا۔ ہیروز میں امیتابھ بچن نے اپنی کئی فلموں میں زبردست مزاحیہ فنکاری کی۔ ڈیوڈ دھون نے گویندہ کے ساتھ قابل تعریف کامیڈی فلمیں بنائیں۔ کامیڈی کے لئے جس طرح ٹائمنگ کو خاص اہمیت دی جاتی ہے ان فلموں میں گویندا کی وہ صلاحیتیں عوام کو دیکھنے کو ملی۔ ارشد وارثی کی سرکٹ برانڈ کامیڈی بھی عوام کو پسند آئی۔ انہوں نے بھی کامیڈی کرداروں سے شائقین کا دل بہلایا ۔ انوپم کھیر، بومن ایرانی، راج پال یادو بھی کامک کرداروں کے لئے موزوں اداکار قرار دیئے گئے۔ سال 2000 ء میں آئی پریہ درشن کی کامیڈی فلموں ’’ہیرا پھیری‘‘ ’’پھر ہیرا پھیری‘‘ ’’مالامال ویکلی‘‘ ’’بھاگم بھاگ‘‘ ’’ہنگامہ‘‘ ’’دے دھنادھن‘‘ ’’گرم مسالہ‘‘ ’’ہلچل‘‘ ’’ چپ چپ کے‘‘ ’’ڈھول وغیرہ کو بہترین کامیڈی فلموں کے زمرہ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ روہت شیٹی کو بہترین کامیڈی فلم ڈائرکٹر کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کی فلمیں ’’آل دا بسٹ‘‘ ’’گول مال سیریز ون، ٹو اور تھری کے بعد انہوں نے شاہ رخ خان اسٹار ’’چینائی ایکسپریس‘‘ جیسی باکس آفس کی سب سے ٹاپ کلکشن فلم بنانے کے لحاظ سے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے ڈائرکٹر بھی بن گئے۔ راجکمار ہیرانی کی منا بھائی ایم بی بی ایس اور تھری ایڈیٹس کو کامیڈی کے ساتھ ایک سنجیدہ پیغام دینے والی فلموں کے زمرہ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ کامیڈی مکس انٹرٹینمنٹ کی بہترین فلموں کے زمرے میں ’’امر اکبر انتھونی، نمک حلال، بڑے میاں چھوٹے میاں، ہیرو نمبر ون، آنکھیں، ایک اور ایک گیارہ ، بول بچن، جوڑی نمبر ون، ویلکم، پارٹنر وغیرہ کو شامل کیا جاسکتا ہے ۔ اداکار تشار کپور جو فلموں کے پردے سے بالکل غائب ہوکر رہ گئے تھے کامیڈی کرداروں سے ہی پھر سامنے آئے۔ روہت شیٹی کی گول مال سیریز میں ان کے گونگے کردار کو بہت پسند کیا گیا۔ پھر ان کی بہن پروڈیوسر ایکتا کپور نے ان کے ساتھ ’’کیا کول ہیں ہم اور اس کا سیکویل کیا سوپر کول ہیں ہم بنایا۔ بہرحال کامیڈی فلمیں ہر زمانے میں پیسہ وصول کی ضمانت رہی ہیں لیکن فلمسازوں کی مجبوری یہ ہے کہ مزاح سے بھرپور اسکرپٹس لکھنے والوں کی انڈسٹری میں کمی ہے۔ ویسے آنے والے وقتوں میں اور بھی کئی کامیڈی فلمیں جس میں ’’پی کے’ ہمشکلیں، ویلکم بیک، آل ازویل، ہمپٹی شرما کی دلہنیاں، ڈیٹکٹیو بوم کیش بخشی، خوبصورت ری میک، تیرے بن لادن 2، بھی ریلیز ہونے والی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ فلمیں مزاح کے ذریعہ عوام کو کتنی تفریح فراہم کرتی ہیں۔