لڑکیوں کو رہا کرانے کے لیے نائجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں ’ہماری لڑکیوں کو واپس لاؤ‘ نام سے احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں
امریکہ کی خاتون اول مشیل اوباما نے کہا ہے کہ گذشتہ مہینے نائجیریا میں سینکڑوں طالبات کا اغوا ان دھمکیوں اور خطرات کا حصہ ہے جن کا سامنا حصولِ علم کی کوشش کرنے والی
دنیا بھر کی لڑکیوں کو ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی نائیجریا کے شمال مشرقی علاقے بورنو سے لڑکیوں کے اغوا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی شدت پسند گروہ بوکوحرام کے خلاف ’مناسب اقدامات‘ پر غور کیا جا رہا ہے۔
عام طور پر خاتون اول خارجہ امور سے متعلق بیانات سے گریز کرتی ہے لیکن مسز اوباما نائجیریا میں اغوا کی جانے والی لڑکیوں کے لیے آواز اٹھانے میں پیش پیش ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے شوہر صدر براک اوباما 14 اپریل کو دو سو سے زائد لڑکیوں کے ان کے سکول سے اغوا کے واقعے پر ’دکھی اور مشتعل‘ ہیں۔
مشیل اوباما نے یہ بات امریکی صدر کے قوم سے ہفتہ وار خطاب میں اپنے شوہر کی جگہ خطاب کرتے ہوئے کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ مغوی لڑکیوں نے انھیں اور ان کے شوہر کو اپنی بیٹیوں کی یاد دلائی ہے۔
امریکی خاتونِ اول نے کہا کہ ’نائجیریا میں جو ہوا وہ اکلوتا واقعہ نہیں۔ ہم ہر روز دنیا بھر میں لڑکیوں کو اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے خطرات کا سامنا کرتے دیکھ رہے ہیں۔‘
پاکستان میں طالبان کے حملے میں زخمی ہونے والی طالبہ ملالہ یوسفزئی کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ملالہ اور دنیا بھر میں ان جیسی دیگر لڑکیوں کی جرات اور امید عملی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔‘
عام طور پر خاتون اول خارجہ امور سے متعلق بیانات سے گریز کرتی ہے لیکن مسز اوباما نائجیریا میں اغوا کی جانے والی لڑکیوں کے لیے آواز اٹھانے میں پیش پیش ہیں
امریکہ چاہتا ہے کہ اقوامِ متحدہ بوکوحرام پر پابندیاں عائد کر دے۔
واضح رہے کہ 14 اپریل کو نائجیریا میں چیبوک کے علاقے سے دو سو سے زائد طالبات کو اغوا کر لیا گیا تھا جن میں سے 53 اس کارروائی کے دوران بچ نکلنے میں کامیاب رہی تھیں۔
بوکوحرام نے حال ہی میں ان طالبات کے اغوا کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اس کے سربراہ ابوبکر شیکاؤ نے دھمکی دی تھی کہ انھیں فروخت کر دیا جائے گا۔
اغوا کی جانے والی طالبات کی رہائی کے لیے چیبوك شہر میں مظاہرے ہوئے جن میں بوکو حرام کی حراست سے بچ کر نکل آنے والی بعض لڑکیاں بھی شامل ہوئیں۔
مظاہروں میں شامل ان لڑکیوں سے جب بات کی گئی تو ان میں سے ایک نے بتایا: ’اغوا کرنے والے شدت پسندوں نے کہا کہ اگر ہم نے فرار ہونے کی کوشش کی تو وہ گولی مار دیں گے۔ لیکن میں کود کر بھاگ گئی اور ایک درخت کے نیچے رات بھر چھپی رہی۔‘
ایک دوسری لڑکی نے بتایا: ’سکول میں آگ لگانے کے بعد ہمیں 10 ٹرکوں میں بھر کر جنگل کی طرف لے جایا جانے لگا۔ اسی وقت میں بھاگ نکلی اور اغوا کاروں سے بچنے کے لیے اس وقت تک دوڑتی رہی جب تک گھر نہیں پہنچ گئی۔‘
نائجیریا کے بعض شہریوں کا خیال ہے کہ حکومت نے شروع میں اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی
لڑکیوں کو رہا کرانے کے لیے نائجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں ’ہماری لڑکیوں کو واپس لاؤ‘ نام سے احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں۔
احتجاج کا مقصد نائجیریا حکومت اور بین الاقوامی سطح پر دباؤ بنانا ہے۔ اس مہم میں شامل ایک شخص حدیثہ عثمان نے کہا: ’پوری دنیا کی توجہ اس طرف دلانے کی ضرورت ہے کہ 200 طالبات کے اغوا پر خاموشی قابل قبول نہیں۔ احتجاج کے ذریعے ہم حکومت کو اس کے رویے پر پھر سے سوچنے کے لیے مجبور کرنا چاہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق حکومت نے شروع میں اس مسئلے کو نظر انداز کیا تھا۔
بی بی سی کے نامہ نگار جان سمپسن نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے شروع میں بالکل بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے لیکن اب صورت حال مختلف نظر آ رہی ہے۔
نائجیریا میں منعقد ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کی میٹنگ میں ہر کوئی اغوا ہونے والی طالبات کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ فورم میں اس ضمن میں دو منٹ کے لیے خاموشی بھی رکھی گئي۔ نائجیریا افریقی براعظم کی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صدر گڈلك جوناتھن نے کہا: ’انتہا پسندی دنیا کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ شدت پسندی افریقہ کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ شدت پسندی نائجیریا کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ ملک کو ملنے والی اضافی امداد اور سرمایہ کاری سے نائجیریا میں شدت پسندی کو ختم کرنے میں کامیابی ملے گی۔‘