روز مرہ زندگی میں استعمال میں لائے جانے والے چند مخصوص کیمیائی اجزاء چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر کا سبب بنتے ہیں۔ اس بارے میں امریکی محققین نے چوہوں پر ایک طبی تحقیق کی ہے۔ ان ریسرچرز کا کہنا ہے کہ ان کیمیائی اجزاء کا استعمال انسانوں پر بھی ایسے ہی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ماحولیات اور صحت سے متعلق معروف جریدے ’ انوائرمنٹل ہیلتھ پرسپکٹیوز‘ میں چھپنے والی اس تازہ ترین تحقیقی رپورٹ میں خواتین کو ایسے 17 مضر کیمیائی اجزاء سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ساتھ ہی اس بارے میں بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ روز مرہ کے کام کاج میں ان کیمیکلز سے کس طرح بچ سکتی ہیں۔
مضر صحت کیمیائی اجزاء میں پٹرول، ڈیزل اور گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں، شعلے کو کم کرنے
کے لیے استعمال میں لائے جانے والا کیمیکل، داغ مزاحم ٹیکسٹائل، پینٹ ریموور اور پانی کو انفیکشن سے پاک کرنے کے لیے استعمال میں لائے جانے والے کچھ کیمیکلز شامل ہیں۔ اس مطالعاتی جائزے کی رپورٹ کی مصنفہ روتھان رڈل جو ’سائلینٹ اسپرنگ انسٹیٹیوٹ‘ کی ریسرچ ڈائریکٹر ہیں، کا کہنا ہے، ’’یہ مطالعاتی جائزہ چھاتی کے سرطان سے بچاؤ کے لیے ایک روڈ میپ فراہم کرتا ہے کیونکہ اس میں اْن کیمیائی اجزاء کی نشاندہی کی گئی ہے، جو روز مرہ زندگی میں بہت زیادہ استعمال کیے جاتے ہیں اور خاص طور سے خواتین انہیں ترجیحی بنیادوں پر بروئے کار لاتی ہیں۔ اس تحقیقی رپورٹ سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ خواتین کے ان مضر صحت کیمائی اجزاء کے ساتھ اکسپوڑر کو کیسے مانپا جا سکتا ہے‘‘۔
روتھان رڈل کا اس بارے میں مزید کہنا تھا، ’’ان معلومات سے خواتین کے بریسٹ کینسر کا سبب بننے والے کیمیکلز سے براہ راست متصادم ہونے کے امکانات کم کرنے اور محققین کو یہ معلوم کرنے میں مدد ملے گی کہ ان مضر صحت کیمیائی اجزاء سے خواتین کس طرح متاثر ہو رہی ہیں‘‘۔ماہرین کے مطابق ماحول میں پایا جانے والا بینزین یا بے رنگ مائع اور ایک بے رنگ گیس بیوٹا ڈائن، پستانی سرطان زا مادے کا سب سے بڑا منبع ہے جو گاڑیوں سے خارج ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لان یا سبزہ زار کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات، تمباکو کا دھواں اور جلے ہوئے سیاہ مائل غذائی اجزاء چھاتی کے سرطان کا سب بنتے ہیں۔محققین کے مطابق صفائی کے لیے استعمال کیا جانے والا میتھیلین کلورائیڈ کیمیکل، ہارمون تبدیلی کی تھراپی کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات، نان اسٹکننگ کوٹنگ یا لیپ، تمباکو کے دھویں سے خارج ہونے والا لوبانین، ایک خوشبودار بے رنگ سیال ہائیڈرو کاربن بھی سرطان زا مادوں میں شامل ہوتا ہے اور خواتین میں بریسٹ کے کینسر یا پستانی سرطان کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔
بے رنگ سیال ہائیڈرو کاربن مصنوعی ربڑ، پلاسٹک اور رال بنانے کے کام آتا ہے اور اس کی مدد سے ہلکا پولسٹرین پلاسٹک بھی تیار کیا جاتا ہے جو اکثر گھروں کی سجاوٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اس مطالعاتی جائزے کی رپورٹ کی ایک شریک مصنفہ جولیا بروڈی کا کہنا ہے، ’’امریکا میں ہر عورت کا واسطہ سرطان زا کیمائی اجزاء سے پڑتا ہے اور اس لیے وہ چھاتی کے سرطان کے خطرات سے محفوظ نہیں ہوتیں۔
کیمیکلز کے نقصانات کو اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ کیمیکلز کے استعمال میں کمی سے بہت سی خواتین کی جان بچائی جا سکتی ہے‘‘۔