میران شاہ: شمالی وزیرستان کے علاقے داندے درپاخیل میں امریکی ڈرون حملے کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے اہم اجلاس کو نشانہ بنایا گیا جس میں کالعدم جماعت کے سربراہ حکیم اللہ محسود سمیت کم از کم 5 شدت پسند ہلاک ہو گئے۔
جمعہ کو بغیر پائلٹ کے امریکی ڈرون طیارے نے شمالی وزیرستان کے علاقے ڈانڈے درپاخیل میں ایک کمپاؤنڈ پر دو میزائل فائر کیے جس سے کم از کم پانچ مشتبہ شدت پسند ہلاک ہو گئے۔
انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق طالبان کے اہم ترین رہنما کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ایک اہم اجلاس میں شرکت کے بعد مسجد سے باہر آرہے تھے۔
مقامی طالبان شدت پسندوں نے بتایا کہ طالبان سربراہ کی نماز جنازہ کل دوپہر کو شلای وزیرستان میں ایک نامعلوم مقام پر ادا کی جائے گی۔
یاد رہے کہ پاکستان کےوزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکا کے بعد یہ دوسرا ڈرون حملہ ہے جہاں انہوں نے صدر اوباما سے ہونے والی ملاقات میں ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس سے قبل بدھ کی رات میرانشاہ بازار میں کیے گئے امریکی ڈرون حملے میں تین مشتبہ شدت پسند ہلاک ہو گئے تھے۔پاکستانی طالبان کی جانب سے تاحال حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی انٹیلی جنس حکام نے بتایا کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ڈرون حملہ کیا گیا اور ہمیں جمعہ کی صبح حکیم اللہ کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی۔
سی آئی اے اور وائٹ ہاؤس نے ٹی ٹی پی امیر کی لاکت پر کوئی بیان دینے سے انکار کر دیا ہے جہاں امریکی انسداد دہشت گردی سینٹر حکیم اللہ محسود کو تحریک طالبان پاکستان کا خود ساختہ امیر قرار دیتا رہا ہے۔
یاد رہے کہ اگست 2009 کے اوائل میں کیے گئے ایک ڈرون حملے میں اس وقت کے تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر بیت اللہ محسود ہلاک ہوگئے تا ہم طالبان نے ان کی ہلاکت کی تصدیق 25 اگست کو کی تھی۔
ان کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان کی مجلس شوریٰ کی جانب سے کمانڈر حکیم اللہ محسود کو نیا امیر مقرر کیا گيا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ حملے میں مزید دو اہم طالبان کمانڈر بھی ہلاک ہوئے ہیں جن کی شناخت عبداللہ اور طارق محسود کے نام سے ہوئی ہے، طارق محسود ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ذاتی محافظ تھے۔
حملے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملے امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں واقعے کے حوالے سے ابتدائی معلومات مل رہی ہیں جبکہ کل حکومت کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کے لیے وفد روانہ ہونا تھا۔
چوہدری نثار حملے کے بعد وزیر اعظم اور سیاسی قیادت سے روابطہ کیا اور ان سے ڈرون حملےکے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ ڈرون حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا لائحہ عمل طے کر رہا ہے جہاں ملک کی تمام جماعتوں نے دہشت گردی کے عفریت سے چھٹکارا پانے کی غرض سے حکومت کو طالبان سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا ہے۔
تاہم ان حملوں سے حکومتی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جہاں ٹی ٹی پی پہلے ہی اس بات کا اعلان کر چکی ہے کہ پاکستان سے مذاکرات میں پیش رفت ڈرون حملوں کی بندش سے مشروط ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیر اعظم نواز نے اپنے دورہ امریکا کے موقع پر امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات کے موقع پر ڈرون حملوں کو پاکستانی کی خود مختاری کی خلاف ورزی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے انہیں بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
لیکن امریکا کی جانب سے اس سلسلے میں کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی تھی۔
گزشتہ روز تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا تھا کہ اگر امریکا نے ڈرون حملے بند نہ کیے تو ہم نیٹو سپلائی بند کردیں گے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے لیکن آج ہی ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔