کیا آپ کو اکثر جمائیاں آتی ہیں یا پھر کسی کو جمائی لیتا ہوا دیکھنا یا اس کا ذکر بھی آپ کو جمائی لینے پر مجبورکردیتا ہے؟اگر ایسا ہے تو اس میں آپ کا قصور نہیں کیونکہ ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ جمائی لینے کا تھکاوٹ اور بوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ چھوت کی طرح لگنے والی جمائی دراصل ہمارے دماغ کے گرم حصے میں خون کو ٹھنڈا کرنے اورذہنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ہے۔
سانپ اور مچھلی جمائی لیتے ہیں۔ کتے اور بلیوں کو بھی جمائی آتی ہے۔ یہاں تک کہ بچہ ماں کے رحم میں جمائی لیتا ہے۔ لیکن جمائی کیوں آتی ہے؟اس رویہ کی وضاحت کے لیے سالوں سے یہ نظریہ قابل قبول سمجھا جاتا رہا ہے کہ بہت بڑا منہ پھاڑ کر ہوا سے آکسیجن جسم کے اندر لینا دراصل عمل تنفس
کے لیے مددگار ہوتا ہے۔لیکن نئے مطالعے کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ جمائی لینے سے ہمارے جسم میں آکسیجن کی سطح میں اضافہ نہیں ہوتا، لہذا یہ ایک مفروضہ ہے۔ حالیہ تحقیق سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ انھوں نے جمائی لینے کی اصل وجہ کا پتہ لگا لیا ہے جس کے مطابق جمائی دماغ پر اثرانداز ہوتی ہے لیکن اس کا حقیقی مقصد دماغ کو آکسیجن فراہم کرنا نہیں۔ بلکہ ہم اپنے دماغ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے جمائی لیتے ہیں۔ ’سنی کالج اونی اونٹا‘نیویارک سے منسلک تحقیق کے سربراہ پروفیسر اینڈریونے کہا کہ دماغ میں درجہ حرارت کی تبدیلیاں نیند کے سائیکل اور اسٹریس ہارمون کارٹی سول کی سطح کیساتھ منسلک ہے۔نیند سے محرومی اور تھکاوٹ دماغ کیدرجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہے۔ اس لیے یہ سچ ہے کہ ہم نیند کی کمی سے نمٹنے کیلئے جمائی لیتے ہیں لیکن جمائی ہمیں جگا کرنہیں رکھتی ہے بلکہ ہوا کے جھونکے کی صورت میں دماغ کو صحیح درجہ حرارت پر کام برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
سائنسی رسالے ’فزیلوجی اینڈ بی ہیویر‘ میں شائع ہونے والے مطالعے کے مطابق انسان کا یہ غیرارادی عمل دراصل دماغ میں خون کے درجہ حرارت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہوسکتا ہے۔مثلاً کسی بھی کمپیوٹر کی طرح ہمارے دماغ کو بھی کام کرنے کے لیے صحیح درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے جب یہ بہت زیادہ گرم ہوجاتا ہیتو جمائی اسے ٹھنڈا کرتی ہے۔اس عمل سے سے دماغ “optimal homeostasis” ہومیوسٹاسسز – جسے علم حیات میں استتباط یعنی اندرونی ماحول کو ممکنہ حد تک ساکن یا جامد رکھنے کی صلاحیت – حاصل کرتا ہے اور بیرونی ماحول اور اندرونی ماحول میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مزید تحقیقات کے لیے ویانا یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر جرگ میسین اور ڈاکٹر کم ڈاش نے ویانا میں موسم گرما اور موسم سرما میں پیدل چلنے والوں میں متعدی جمائی کی فریکوئنسی کا جائزہ لیا۔راہ گیروں کو جمائی لیتے ہوئے لوگوں کی تصاویر دکھائی گئیں اور انھیں اپنے جمائی لینے کے رویہ کو نوٹ کرنے کیلئے کہا گیا۔
نتائج سے یہ دلچسپ حقیقت سامنے آئی کہ متعدی جمائی کا تعلق موسم سے نہیں تھا بلکہ ۲۰سینٹی گریڈ ایک تھرمل زون تھا جب سب سے زیادہ جمائیاں لی گئیں۔محققین نے دیکھا کہ موسم گرما میں امریکی ریاست ایری زونا کے خشک موسم میں متعدی جمائی درجہ حرارت ۳۷سینٹی گریڈ میں کم رہی اور ویانا، آسٹریا میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کم ہونے پر لوگوں نے گرمیوں کے مقابلے میں بہت کم جمائیاں لیں۔جرگ کے مطابق ممکن ہے کہ بہت زیادہ یا بہت کم درجہ حرارت میں جمائیاں اس لیے کم آتی ہیں کیونکہ بہت زیادہ ٹھنڈی یا گرم ہوا ہمارے دماغ کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے اور دماغ اپنا درکار درجہ حرارت نہیں حاصل کرسکتا ہے۔ جرگ کہتے ہیں کہ محفل کے کسی ساتھی کو جمائی لیتا ہوا دیکھ کر اگرآپ بھی جمائی لینے لگیں تو ایسی تقلید آپ کو بھی ہوشیار کرنے کے لیے ہو سکتی ہے تاہم جمائی لینا مکمل طور پر ایک لاشعوری عمل ہے۔ ممکن ہے کہ اس مضمون میں جمائی کے بارے میں پڑھنے سے شاید آپ نے جمائیاں لینا شروع کردی ہوں۔ لیکن اب یہ جمائیاں شاید آپ کو ناگوار نہ گزریں بلکہ جمائیوں کا شکریہ اور اس نئیٹھنڈے دماغ کا بھی شکریہ جس نے پہلے سے زیادہ اب آپ کو ہوشیار کردیا ہے۔