نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یوکرینی سرحد کے قریب تعینات 40 ہزار روسی فوجیوں کی واپسی سے یوکرینی بحران کی شدت کم ہو سکتی ہے۔
“اطلاعات کے مطابق روس نے مارچ کے اختتام پر جزوی طور پر فوجوں کو سرحد سے واپس بلا لیا تھا۔ اس وقت صرف ایک بٹالین واپس آئی تھی۔ مئی کے مہینے میں روس نے تمام فوجیوں کی واپس کا حکم جاری کیا تھا تاہم نیٹو کے اعلیٰ حکام کا کہنا تھا کہ فوج واپس نہیں گئی۔ ظاہر ہے کہ روسی فوجی کمانڈ کے ڈھانچے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ 40 ہزار روسی فوجیوں کا خطرہ، چاہے انھیں استعمال کیا جائے یا نہیں، بہت بڑا خطرہ ہے۔”
نامہ نگار جانتھن مارکس
گذشتہ چند ہفتوں میں یوکرین کی سرحد پر روسی فوجیوں کی تعیناتی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات میں کشیدگی بڑھی ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق کریملن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’روستوف، بیلگورود اور بریانسک کے علاقوں میں موسمِ بہار کی فوجی مشقیں مکمل ہونے کے بعد روسی صدر نے وزیرِ دفاع کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ فوجیں واپس بلا لیں۔‘
روس اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ اس وقت ہوا تھا جب فروری میں روس کے حامی یوکرینی صدر وکتر یانوکووچ کی برطرفی کے بعد روس نے نیم خود مختار علاقے کرائمیا کا روس کے ساتھ الحاق کر لیا تھا۔
دوسری جانب یوکرینی فوج اور روس کے حامی علیحدگی پسندوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔
پیر کو سلویانسک کے قریب دونیتسک کے علاقے میں علیحدگی پسندوں کے حملے میں ایک یوکرینی فوجی ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا۔
سنیچر کو علیحدگی پسندوں نے ’عوامی ریاست دونیتسک‘ میں وزیراعظم تعینات کر لیا ہے۔