لکھنؤ(نامہ نگار)سڑک کے دونوں جانب دکانداروں کا قبضہ، باقی بچی سڑک پر صارفین نے اپنی گاڑیاں کھڑی کر دیںحالات دیکھ کر سڑک پر پیدل چلنا تو دور گاڑی کیسے نکلے؟ جبکہ تراہے پر پولیس بوتھ ہے۔ کارپوریشن ملازمین کا بھی ادھر سے گزرنا ہوتا ہے لیکن اصلاح کرنے کیلئے ذمہ دارکون بنے؟ یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے لیکن اس کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا جس کا خمیازہ عام راہگیروں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
یہ تصویر پرانے لکھنؤ کے اکبری گیٹ تراہے کی ہے جہاں سے چوپٹیاں روڈ ، پل غلام حسین اور چوک کیلئے راستہ جاتا ہے۔ اس راستے پر چوبیس گھنٹے لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے لیکن ۲۴گھنٹے میں ۱۲گھنٹے مذکورہ راستے سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تراہے سے چوپٹیاں جانے والی سڑک کے دونوںجانب دکانیں ہیں۔ دھوپ سے بچنے کیلئے دکانداروں نے اپنی اپنی دکانوں کے آگے ڈنڈوں کے سہارے ترپال لگا رکھا ہے اس کے علاوہ دکانوں پر آنے والے گاہک اپنی اپنی گاڑیاں سڑک پر کھڑی کر دیتے ہیںجس سے سڑک تنگ ہوجاتی ہے ۔باقی بچی سڑک پر ٹیمپو، چار پہیہ اور دوپہیہ گاڑیاں گزرتی رہتی ہیں۔ جس سے اکثر جام کی صورتحال بنی رہتی ہے۔ ٹریفک کے دباؤ کے سبب مذکورہ راستے پر شہریوں کا پیدل چلنا مشکل ہے جبکہ تراہے پر پولیس بوتھ بھی بنا ہے جہاں دن بھر ایک جوان تعینات رہتا ہے اس کے باوجود تراہے پر موجود پولیس کے جوان سڑک کے درمیان کھڑی کی گئی گاڑیوں کو نہیں ہٹواتے جس سے جام لگا رہتا ہے۔ یہی نہیںبلکہ مذکورہ راستے پر میونسپل کارپوریشن کے افسر اور ملازمین کا گزرنا رہتا ہے لیکن محکمہ کے اف
سر بھی اس جانب توجہ نہیں دیتے جس سے مذکورہ راستے پر ٹریفک نظام متاثر رہتا ہے۔ جبکہ لکھنؤ ایس ایس پی کا عہدہ سنبھالتے ہی افسر ٹریفک کے مسئلہ کو درست کرنے کیلئے پہلی ترجیح بتاتے ہیں بلکہ علاقہ میں جام کی صورتحال پر مقامی افسر کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن کچھ دن بعد ایس ایس پی بھی کوئی توجہ نہیں دیتے اور مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے جس کا خمیازہ مذکورہ راستے پر گزرنے والوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ کارروائی نہ ہونے سے راستے میں گاڑیاں کھڑی کرنے والوں کے حوصلہ بلند رہتے ہیں اس معاملہ میں کچھ دکاندار دبی زبان سے کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ادھر سے گزرنے والے سبھی لوگوں کا ہوتا ہے لیکن مقامی دکاندار توجہ نہیں دیتے جس سے یہ مسئلہ برقرار ہتا ہے۔