نئی دہلی، 22 مئی (یو این آئی) اپنے آپ کو ثقافتی تنظیم کہنے والے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس نے لوک سبھا انتخابات کے دوران تقریباً 37 برس بعد اپنے آپ کو سیاسی طور پر سرگرم کیا اور مرکز میں حکومت سازی کے بعداب وہ نئی حکومت کے ذریعہ مرتب کی جانے والی پالیسیوں میں اہم رول ادا کرنے جارہا ہے۔اس بات کاعندیہ آر ایس ایس کے ترجمان رام مادھو نے دیا ہے۔ آر ایس ایس کے ترجمان رام مادھو نے خود یہ قبول کیا ہے کہ 1977 کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب آر ایس ایس اور اس کے ورکروں نے سخت محنت کرکے مرکز میں حکومت بدلنے کے عزم کو پورا کیا لیکن رام مادھو یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں سیاسی طور پر سرگرم رہنے کے باوجود آر ایس ایس سیاسی تنظیم ہے۔ وہ صرف اتنا تسلیم کرتے ہیں کہ 1980 سے لے کر اب تک بی جےپی نے بہت سارے انتخابات میں حصہ لیا لیکن آر ایس ایس نے کبھی کھل کر اس کی مدد نہیں کی۔ رام مادھو کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کو مرکز میں حکومت بدلنے کے لئے چار وجوہات کی بنا پر سرگرم رول ادا کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ایک ملک کی اندرونی اور بیرونی سیکورٹی کا خراب ہوتا ماحول،دوسرا ملک کی معاشی حالت کا خراب ہونا، تیسرا کرپشن کا بیتحاشہ بڑھنا اور چوتھا ذات اور مذہب کے نام پر سیاست کا ہونا ۔سنگھ کی نظر میں یو پی اے حکومت ماونوازتنظیموں اور ملک میں اندرونی طور پر پیدا ہوئے مبینہ جہادی خطروں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی ۔اس کا بدترین پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بجائے “ ہندوخطرے ” کا مفروضہ استعمال کیا گیا تاکہ اصل مسئلہ سے عوام کا دھیان ہٹایا جاسکے۔واضح رہے کہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے گذشتہ برس 26 اکتوبر 2013 کو آر ایس ایس نے جنوبی ریاست کیرلا کے شہر کوچی میں اپنی مجلس عاملہ(اکھل بھارتیہ کاریہ کاری منڈل) کی ایک خصوصی میٹنگ کی تھی اور اس میٹنگ میں آر ایس ایس کے لیڈران نے عہد کیا تھا کہ وہ آئندہ انتخابات میں نریندر مودی کو وزیراعظم بنانے کے لئے ہرممکنہ کوشش کریں گے کیونکہ ان انتخابات میں مرکز میں حکومت پر قبضہ کرنا ان کے لئے “کرو یا مرو” جیسی صورت ہوگی۔ اس موقع پر آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری سریش بھیا جی جوشی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا تھا اور ایک بیان جاری کیا تھا ، جس میں کہا گیا تھا کہ “حالانکہ آر ایس ایس کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے اور اس کے کارکن انتخابی عمل میں شریک نہیں کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ آر ایس ایس ووٹرس میں بیداری پیدا کرنے کے لئے بوتھ لیول پر تحریک چلائے گا اور یہ یقینی بنائے گا کہ رائے دہندگان پولنگ بوتھ پر جاکر اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔آر ایس ایس کی اس مجلس عاملہ کی میٹنگ کے دوران بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ بھی کوچی پہنچے تھے اور آر ایس ایس لیڈران کے ساتھ طویل تبادلہ خیال کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ آر ایس ایس کی اس میٹنگ کے دوران ہی یہ طے پایا تھا کہ بی جے پی ملک گیر پیمانہ پر لوک سبھا کی جن 428 نشستوں پر الیکشن لڑے گی ، ان میں آر ایس ایس کے کارکن اہم رول ادا کریں گےاور پولنگ بوتھ کا پورا منیجمنٹ ان کے ہاتھوں میں رہے گا۔ اس کے لئے آر ایس ایس نے “ بھارت وجے” نام سے ایک پورٹل تیار کیا جس میں تمام ووٹروں کی تفصیلات درج کی گئیں جن میں ان کے مکان نمبر اور مکمل پتہ کے علاوہ ٹیلی فون نمبر اور موبائیل نمبر بھی درج کئے گئے اور اس کے ذریعہ انتخابات کے دوران رابطہ کیا گیا اور بی جے پی کو ووٹ دینے کی اپیل کی گئی
اس سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں لفٹننٹ گورنر نے کہاکہ پولس کا کام امن قانون برقرار رکھنا ہوتا ہے اور پولس نے اپنی وہی ذمہ داری نبھائی ہے۔ انہوں نے کہاکہ آپ کے کارکنوں نے قانون توڑا ہے۔ انہیں قانون و ضابطے کا احترام کرنا چاہئے۔مسٹر نجیب جنگ نے دہلی اسمبلی کے مستقبل کے سلسلے میں پوچھے گئے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہاکہ یہ ان کے اور صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے درمیان تبادلہ خیال کا موضوع ہے۔ اس سے قبل وہ کچھ نہیں کہیں گے۔دہلی پولس کمشنر وی ایس بسی نے بتایا کہ گرفتارشدہ “آپ” کے کارکنوں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 182 سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انہیں آج عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ انہوں نےبتایا کہ ان کارکنوں میں سابق وزیر منیش سسودیا اور گڑگاو¿ں سے لوک سبھا کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے والے یوگیندر یادو شامل ہیں۔مسٹر بسی نے “آپ”کے کارکنوں کے خلاف پولس کی کارروائی کو قانون و انتظام برقرار رکھنے کے لئے ضروری لیکن محتاط کارروائی قرار دیا۔ انہو ںنے کہاکہ پولس مجبوری میں ہی ہمیشہ محتاط انداز میں طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے اور مستقبل میں بھی وہ اسی طرح کام کرے گی۔