یہ نہیں معلوم کہ معزول وزیر اعظم کو کہاں زیر حراست رکھا گیا ہے
تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت کے ایک روز بعد فوج نے معزول وزیر اعظم ینگ لک شناواترا سمیت 100 سیاستدانوں کو بنکاک میں ایک فوجی مرکز میں طلب کیا ہے۔
اس کے علاوہ فوج نے ملک کے 155 معروف سیاست دانوں اور کارکنان پر بغیر اجازت ملک سے باہر جانے کی پابندی عائد کر دی ہے۔
بنکاک میں بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایا کہ جمعے کی دوپہر کو معزول وزیر اعظم اس فوجی مرکز سے روانہ ہوگئیں جہاں فوج نے ان کو طلب کیا تھا۔ تاہم اس مرکز سے نکل کر وہ
ایک اور فوجی مرکز کی جانب روانہ ہو گئیں۔
یہ نہیں معلوم کہ معزول وزیر اعظم کو کہاں زیر حراست رکھا گیا ہے۔
نامہ نگار کے مطابق ینگ لک شناواترا کی جماعت اور اپوزیشن جماعت کے سیاست دانوں کو فوج نے رات کو رہا کر دیا تھا لیکن وہ سیاست دان اور کارکنان ابھی بھی زیر حراست ہیں جنھوں نے مظاہرے کیے۔
واضح رہے کہ تھائی لینڈ میں فوج کے سربراہ نے فوجی بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ فوج نے حکومت سنبھال لی ہے۔
ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فوج نظم و ضبط بحال کرے گی اور سیاسی اصلاحات متعارف کروائے گی۔
امریکہ سمیت دنیا کے متعدد ممالک نے تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت اور فوج کے حکومت سنبھالنے کی مذمت کی ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ بغاوت کا کوئی جواز نہیں تھا اور امریکہ کی جانب سے دی جانے والی دس ارب ڈالر کی امداد کو روکا جا سکتا ہے۔
فرانس اور جرمنی نے بھی فوجی بغاوت کی مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ نے اس اقدام پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ منگل کے روز ملک میں فوج نے اہم سرکاری عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور مارشل لا نافذ کر دیا تھا۔ اس موقعے پر فوج کا کہنا تھا کہ ملک کی سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کو بغاوت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا موقف تھا کہ ملک میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک عرصے سے جاری کشمکش اور سیاسی بحران کے بعد فوج نے مارشل لا نافذ کیا ہے۔
ملک کے عبوری وزیر اعظم کے چیف سکیورٹی ایڈوائزر کا کہنا تھا کہ فوج کے فیصلے کے بارے میں حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔